بچّوں کو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے۔ بچّوں کی اچھے انداز میں تربیت اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس کے لئے سرکار ِدوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بچّوں کی تربیت کا انداز کیسا تھا یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے اور بعد آپ سے بڑھ کر بہترین تعلیم دینے والا نہیں دیکھا۔([i])

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی شفقت، مَحبّت، حُسنِ سلوک اور نرمی و حکمت بھرے انداز سے بچّوں کی تربیت کا بھی خاص اہتمام فرمایا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ڈانٹنے سے اجتناب فر ماتے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں گزارے مگر نہ تو کبھی آپ مجھ پر ناراض ہوئے اور نہ کبھی مجھے ڈانٹا بلکہ یہ بھی نہ فرمایا کہ یہ کام تو نے کیوں کیا؟ یا کیوں نہ کیا؟ ۔([ii])

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچھی باتو ں کی تر غیب دلاتے ،ایک بار حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام ایسے رہو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کینہ نہ ہو، اے میرے بیٹے! یہ میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت سےمَحبّت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔([iii])

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دستر خوان پر بچّوں کو ساتھ بٹھاتے اور انہیں کھانے پینے کے آداب سکھاتے۔ اگر کوئی بِسْمِ اللہ شریف پڑھے بغیر کھانا شروع کردیتا تو آپ نرمی سے فرماتے بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر کھانا کھاؤ اسی طرح اگر کوئی بچّہ دوسرے کے سامنے سےکھانے لگتا تو آپ اسے پیار سے فرماتے: بیٹا! کھانا اپنے سامنے سے کھانا چاہئے۔([iv])

اپنے مبارک افعال کے ذریعے بھی بچّوں کی تربیت فرماتے چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچّوں کو سلام کرنے میں پہل کیا کرتے([v]) تاکہ انہیں سلام میں پہل کرنے کی عادت ہوجائے۔ آپ نے بچّوں کے بارے میں فریا کہ وہ بڑوں کو سلام کرنے میں پہل کیا کریں۔([vi])

جب کوئی بچّہ غلط کام کرتا تو سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے شفقت و نرمی سے سمجھاتے، اس کے حق میں دعا بھی فرماتے، ممنوعات سےمنع فر ماتے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بچپن میں مدینہ شریف کے باغوں میں جایا کرتے اور کھجور کے درختوں پر پتھر مار کر کھجوریں گِرا کر کھجور کھاتے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نرمی سے فرمایا: پتھر مت مارا کرو البتہ جو کھجوریں پک کر نیچے گر جاتی ہیں، انہیں کھا لیا کرو۔(وہ صحابی فرماتے ہیں) پھر آپ نے محبت سے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں دعا فرمائی: ”اے اللہ !اس کا پیٹ بھر دے۔“([vii])

اللہ پاک ہمیں اچھے انداز میں اصلاح کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


([i])مسندامام احمد، 9/196، حدیث:23823

([ii])حضور کی بچوں سے محبت، ص48، بحوالہ بخاری، 2/247، حدیث:2768، 4/110، حدیث:6038

([iii])ایضا،ص 49، بحوالہ ترمذی، 4/310، حدیث:2687

([iv])ایضاً ، ص51، بخاری، 3/521، حدیث: 5376ماخوذاً

([v])ایضاً، ص51، بخاری، 4/170، حدیث:6247

([vi])ایضا ً، ص51، بخاری، 4/167، حدیث:6234ماخوذاً

([vii])ایضاً،ص50، ابوداؤد، 3/56، حدیث:2622 ماخوذاً