اللہ پاک نے آسمان و زمین بنائے۔ سب سے پہلے فرشتوں کو نور، جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا گیا اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا۔ سب سے پہلے انسان اللہ پاک کے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ،اسی لیے آپ کا لقب ابو البَشَرْ ہے اور آپ سب سے پہلے رسول بھی ہیں جو شریعت لے  کر اپنی اولاد کی طرف بھیجے گئے۔ ( نزہۃ القاری، 5/52مفہوماً)

اللہ پاک نے خاص اپنے دستِ قدرت سے آپ کا جسمِ مبارک بنایا اور اُن میں اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا، اُنہیں کائنات کی تمام اشیا کے ناموں،اُن کی صفات اور اُن کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔ ( سیرت الانبیاء،ص65 )

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے اللہ پاک نے مشورے کے انداز میں فرشتوں سے کلام فرمایا ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ( پ 1 ،البقرۃ: 30) ترجمہ کنز الایمان : اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

اللہ پاک اس سے پاک ہے کہ اسے کسی سے مشورے کی ضرورت ہو۔البتہ یہاں(خلیفہ)بنانے کی خبر فرشتوں کو ظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔خلیفہ اسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اصل کا نائب ہو۔

حدیثِ مبارک:جو کسی کام کا ارادہ کرے اور اس میں کسی مسلمان سے مشورہ کرے اللہ پاک اسے درست کام کی ہدایت دے دیتا ہے ۔ ( تفسیر منشور،7/357)

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کئی سالوں سے جنت میں رہ رہے تھے۔ اللہ پاک نے انہیں جنت کی تمام اشیا کھانے کا حکم دیا سوائے ایک درخت کے کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا مگر شیطان ابلیس کو یہ بات گوارہ نہ ہوئی ،اس نے حضرت آدم علیہ السلام اور حوا رضی اللہ عنہا کو بہکایا کہ وہ اس درخت کا پھل کھا لیں جس کو کھانے سے انہیں اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔آخر کار وہ ملعون کامیاب ہو گیا اور ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا ۔اللہ پاک نے انہیں جنت سے زمین پر بھیج دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی یہ خطا اجتہادی تھی اور اجتہادی خطا معصیت یعنی( گناہ )نہیں ہوتی،اس لیے جو شخص حضرت آدم علیہ السلام کو عاصی یا ظالم کہے وہ نبی کی توہین کے سبب دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔اللہ مالک و مولیٰ ہے وہ اپنے بندہِ خاص حضرت آدم علیہ السلام کو جو چاہے فرمائے اسی میں اُن کی عزت ہے، کسی کی کیا مجال جو خلافِ ادب کوئی لفظ زبان پر لائے اور قرآنِ کریم میں اللہ پاک کے فرمائے ہوئے کلمات کو دلیل بنائے۔اللہ پاک نے ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر، ادب و اطاعت کا حکم فرمایا ہے۔لہٰذا ہم پر یہی لازم ہے کے ہم حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیائے کرام کی تعظیم کریں اور ہر گز ہرگز ایسے کلمات نہ بولیں جس سے ان کی شان و ادب میں کوئی کمی واقع آئے ۔ اللہ پاک سے سچی توبہ کریں ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ( سورہ طہ ،پارہ: 16 ،ایت: 122 )

رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ-وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23) ترجمہ کنزالایمان:اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ضرور ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

حدیثِ مبارک: پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:جب حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور عرض کی:اے اللہ! میں محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری مغفرت فرما دے۔اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کون ہیں؟حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی:اے اللہ!تیرا نام برکت والا ہے۔جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے سر اٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ تو میں نے جان لیا کہ تیری بارگاہ میں اس شخص سے زیادہ کسی کا مرتبہ اور مقام نہ ہوگا جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے۔اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی:اے آدم!یہ تیری اولاد میں سب سے آخری نبی ہیں اور ان کی اُمت تمہاری اولاد میں سب سے آخری اُمت ہے۔اگر محمد مصطفےٰ (ﷺ) نہ ہوتے تو اے آدم!میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ ( معجم صغیر ، ص 82 )

حضرت آدم علیہ السلام کا بیان کردہ تذکرے سے یہ نصیحتیں ملتی ہیں:

1-اللہ پاک نے انسان کو علم عطا فرمایا اور اسے فرشتوں سے افضل کیا اور اسے ان پر نائب بنایا اس لحاظ سے علم حاصل کرنا عبادت سے افضل ہے ۔

2-اللہ پاک نے نائب بنانے کے حوالے سے فرشتوں سے مشورے والے انداز میں گفتگو فرمائی باوجود اس کے کہ اللہ پاک مشورہ کرنے کی حاجت سے پاک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشورہ کرنا سنتِ الٰہیہ ہے ۔

3 -جب انسان خطا کا مرتکب ہوتا ہے اور سچے دل سے بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑا کر دعا کرے اور آنسو بہائے تو اللہ پاک اس کی خطاؤں کو معاف فرما دے گا جس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں توبہ و استغفار کی تو انہیں معاف فرما دیا گیا ۔

4-حضرت آدم علیہ السلام نے آقا ﷺ کے وسیلے سے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کی جس کے سبب انہیں معاف فرما دیا گیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کے وسیلے سے اگر توبہ کی جائے یا دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے ۔

5 -حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی دعا میں حضور نبیِ کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا تذکرہ فرمایا جس سے یہ صاف واضح ہوا کہ آپ خاتم النبیین ہیں۔