خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے،  چنانچہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تخریم الکبر، ص 61، حدیث 51)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اس کو متکبر کہتے ہیں، یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔

تکبر ایسا مہلک مرض ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی برائیوں کو لاتا ہے اور کئیں اچھائیوں سے آدمی کو محروم کر دیتا ہے، بنیادی طور پر دل میں تکبر اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان خود کو بڑا سمجھے اور اپنے آپ کو وہی بڑا سمجھتا ہے، جو اپنے اندر کسی کمال کی بُو پاتا ہے، پھر وہ کمال یا تو دینی ہوتا ہے، جیسے علم و عمل وغیرہ اور کبھی دنیاوی مثلا مال و دولت اور طاقت منصب وغیرہ۔

جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین آدمی ہیں کہ ان سے اللہ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں ستھرا کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا، ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بوڑھا زناکار، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔ (صحیح مسلم، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمن باالعطیہ،ج1،ص72، رقم359)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ عنایت نہ فرمائے گا، جو اپنی چادر کو تکبر سے ٹخنوں کے نیچے گھسٹتا ہوا چلے۔ (صحیح بخاری، باب من جرثوبہ من الخیلاء، جلد 7، صفحہ 141، رقم 5788)

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس کسی کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تخریم الکبرو بیانہ، ص 60، حدیث 147)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا، بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ (مرقاۃ المفاتیح)

تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ما جاء فی شدۃ۔۔الخ، ج4،ص 22، حدیث 2500)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے زیادہ نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہوگا، جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہوگا اور قیامت کے لئے میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور متفیھق ہیں، صحابہ کرام نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بیہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا، مگر یہ کون ہے؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایااس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ،ج3،ص410،ح2025)

اللہ پاک تکبر سے محفوظ فرمائے۔آمین

نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا