جب مرد و عورت شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو شریعت اسلامیہ کی جانب سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ شادی شدہ اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ شوہر کے حقوق میں کمی نہ آنے دیں کیونکہ شوہر کی رضا و ناراضی میں رب کی رضا و نافرمانی پوشیدہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث نبوی سے لگائیے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

شریعت مطہرہ نے بیوی کو اپنے شوہر کی خوب اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں حدیث مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشاد مبارک ہے: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے اور بیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ دوسری روایت میں ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو عورت کو چاہیے کہ وہ اس کے پاس چلی جائے اگر چہ روٹی پکانے کے لیے تنور پر کھڑی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)

عورت پر واجب ہے کہ ہر اچھے کام میں اپنے شوہر کی اطاعت کرے، اس کی نافرمانی اس کے لیے حرام ہے، اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اسے بتائے بغیر بلا اجازت گھر سے باہر جائے۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے، اور پھر شوہر اس پر غصے ہو کر رات گزارے تو اس عورت کو فرشتے صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

آپ علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مرد عورت کا نگہبان، محافظ اور حاکم ہے۔ اگر عورت اس سے سرتابی کرےاسے حق ہے کہ تنبیہی امور اختیار کرے، اور یہ دلیل ہے کہ عورت پر واجب ہے کہ معروف میں اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور ناحق مخالفت کرنا اس پر حرام ہے۔

رسول خدا ﷺ نے فرمایا: ایسی عورت جو اپنے شوہر کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہو خداوند متعال اس کی کسی نیکی کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ اپنے شوہر کو راضی نہ کرلے اگرچہ دن روزے سے اور پوری رات عبادت الٰہی میں گزارے اور خدا کی راہ میں کتنے غلام آزاد کروائے اور کتنے ہی گھوڑے صدقے میں دے دے سب سے پہلے اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)

رسول اللہ صلی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دنیا میں جب کوئی عورت اپنے شوہر کو ستاتی ہے تو جنت میں موجود اس کی خوبصورت آنکھوں والی حور بیوی اس کی دنیاوی بیوی سے کہتی ہے: تیر استیا ناس ہو، اس کو مت ستا، یہ تو تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے اور جلد ہی تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس (جنت) آنے والا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)