نئے سال کے آغاز میں مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کرنے چاہئیں ۔یا دوسرے الفاظ میں
کہہ لیجئے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔(1) ماضی کا
احتساب (2) آگے کا لائحہ عمل۔
1۔
ماضی کا احتساب: نیا سال ہمیں اپنے دینی دنیاوی دونوں میدانوں میں اپنا
محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا ہے اس
میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔آپ نے 365 دن گزار دئیے، 50 سے زائد ہفتے ۔12 مہینے یعنی ایک پورا سال، آج مڑ کر دیکھے آپ کو
یہ ایک سال ایک صدی کی طرح لگے گا لیکن گزرے وقت کا اب کیا افسوس کرنا جیسے کہا
جاتا ہے:مٹھی ریت سے بھری تھی لیکن اب ہاتھ خالی ہے۔
اب پچھتاوے کیا ہوت
جب چڑیاں چُگ گئی کھیت۔
لہذا ہمیں عبادات، معاملات، اعمال ،حلال و حرام، حقوق اللہ،حقوق
العباد کی ادائیگی کے میدان اپنی زندگی کا
محاسبہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئی اس لئے کہ انسان دوسروں
کی نظروں میں تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے ۔اس لئے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا (ترمذی،4/247)
ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو! قبل اس کے کہ تیرا حساب کیا جائے ۔
اس لئے ہمیں ایمانداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور
مِلی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہو جائے۔ حدیث
مبارکہ میں آتا ہے:اغْتَنِمْ خَمْسًا قبلَ خَمْسٍ: شَبابَكَ قبلَ هِرَمِكَ، وصِحَّتَكَ
قبلَ سَقَمِكَ، وغِناكَ قبلَ فَقْرِكَ، وفَرَاغَكَ قبلَ شُغْلِكَ، وحَياتَكَ قبلَ
مَوْتِكَ (المستدرک 5/435،الحدیث:7916)
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو1۔ جوانی کو
بڑھاپے سے پہلے2۔ صحت کو بیماری سے پہلے3۔ مالداری تنگ دستی سے پہلے4۔ فرصت کو
مشغولیت سے پہلے5۔ زندگی کو موت سے پہلے۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے
منادی
قدرت نے گھڑی عمر کی اک اور
گھٹا دی
اس لئے کہ ہر نیا
سال خوشی کی بجائے ایک حقیقی انسان کو بے
چین کر دیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کو اس بات کا اب احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے۔ اور میں لمحہ بلمحہ
موت کے قریب ہوتا جا رہا ہوں اور برف کی طرح میری زندگی پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات کی
خوشی منائے بلکہ اس سے پہلے کے زندگی کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائے۔ کچھ کر
لینے کی تمنا اس کو بے قرار کر دیتی ہے۔ اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے۔
لہٰذا ہمارے لئے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر
کرتے ہوئے آنے والی لمحات زندگی کا صحیح استعمال کرنے کا عزم اور ارادے کا موقع ہے۔
اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور
حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔
اللہ کریم ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم