حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر
اور رسول ہیں۔اللہ پاک سے بغیر کسی واسطے کے کلام کرنے کا شرف پانے کے سبب کلیمُ
اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔آپ علیہ السلام کی ذات بہت سارے اوصاف کی حامل
ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دس اوصاف مندرجہ ذیل ہیں:
(1،2) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ
پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے، نبی اور رسول تھے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا
بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔
(3)مستجابُ الدعوات:آپ علیہ السلام اللہ پاک کی
بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے تھے، چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ
22،الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔
(4)کلیمُ اللہ:اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایااور آپ کلیمُ اللہ کے شرف
سے نوازے گئے۔آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔حجاب اٹھا دیے گئے یہاں
تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السلام کی قدر و منزلت بلند کی
گئی۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ
جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52)ترجمہ:اور ہم
نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب
بنایا۔
(5)بارگاہِ الٰہی میں مقام قرب:بارگاہِ
الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت
ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ارشادِ باری ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ
رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے
اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
(6)صحائف اور تورات کا نزول:اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر 10 صحیفے نازل
فرمائے، پھر آپ علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی اور آپ کے واسطے سے حضرت
ہارون علیہ السلام کو عطا ہوئی۔اس کتاب سے متعلق ارشاد فرمایا:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ
الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷) (پ23،الصّٰفّٰت:117) ترجمہ:اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا
فرمائی۔
(7)کامل ایمان:حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ
کے بھائی اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے
کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
(8)جوانی میں عطائے علم و حکمت:جب
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر شریف 30 سال سے زیادہ ہو گئی تو اللہ پاک نے آپ
علیہ السلام کو علم و حکمت سے نوازا۔قرآنِ مجید میں ہے:وَ
لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ
كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20،القصص:14)ترجمہ:اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو
پہنچےاور بھرپور ہو گئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایااور ہم نیکوں کو ایسا
ہی صلہ دیتے ہیں۔
(9)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطائے معجزات:اللہ پاک
نے آپ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے نوازا،مثلاً اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ! اس عصا کو زمین میں ڈال دو تاکہ تم اس کی شان
دیکھ لو اور جب وہ زمین پر ڈال دیا تو وہ سانپ بن کر زمین پر تیزی سے دوڑنے لگا اور
راستے میں آنے والی ہر چیز کو کھانے لگا۔اس حال کو دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام
کو خوف ہوا تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں!ہم اسے دوبارہ
پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف جاتا رہا، یہاں
تک کہ آپ نے اپنا دستِ مبارک(ہاتھ) اس کے منہ میں ڈال دیا اور وہ آپ علیہ السلام
کے ہاتھ لگاتے ہی پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ (تفسیر خازن،3/251-252)
(10)حضرت موسیٰ علیہ السلام کونبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی 9
روشن نشانیاں عطا کی گئیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ 15،
بنی اسرائیل:101)ترجمہ:بے
شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔“حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما
نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو نو نشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں:(1)عصا،(2)یدِ
بیضاء(3)بولنے میں دقّت(یعنی دشواری)جو حضرت موسیٰ ان کی زبان مبارک میں تھی،پھر
اللہ نے اسے دور فرما دیا،(4)دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا، (5)طوفان،
(6)ٹڈّی، (7)گھن، (8)مینڈک،(9)خون۔(تفسیر خازن، 3/194)