محمد وقار عطاری (درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
عثمان غنی کراچی،پاکستان)
الرَّحمٰنُ ،الرَّحِیمُ ،عٰلِمُ الغَیبِ، الشَّہَادَۃُ،
المَلِکُ، القُدُّوسُ،السَّلٰمُ، المُؤمِنُ،المُھَیمِنُ، المُتَکَبِّرُ، سُبحٰنَ
اللّٰہِ، الخَالِقُ، البَارِیُٔ، المُصَوِّرُ، العَزِیزُ،
الحَکِیمُ،الغَنِیُّ،الحَمِیدُ،الجَبَّارُ،الخَالِقُ۔
احادیث میں اسمائے حسنیٰ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ ترغیب کے لئے دو احادیث درجہ ذیل
ہیں:۔
(1) حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک
اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں۔ یعنی ایک کم سو، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں
داخل ہوا۔ (بخاری کتاب الشروط،حدیث:2836)
حضرت علامہ یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے اِلٰہیہ ننانوے میں منحصر نہیں ہیں۔ حدیث کا
مقصد صرف یہ ہے کہ اتنے ناموں کے یاد کرنے سے انسان جنتی ہو جاتا ہے۔(نووی علی
المسلم،کتاب الذکر والدعاء)
(2) ایک روایت میں
ہے کہ اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کے ذریعے دعا مانگی تو اللہ پاک اس کی
دعا کو قبول فرمائے گا۔ (جامع صغیر، ص 143،حدیث:237)
اسماء حسنیٰ پڑھ کر دعا مانگنے کا بہترین طریقہ صراط الجنان
فی تفسیر القرآن کی جلد نمبر 3صفحہ نمبر 480 کا مطالعہ کریں۔
اس آیت میں فرمایا:وَ لِلّٰهِ
الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ
فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو اور
انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے نکلتے ہیں۔(پ 9،الأعراف 180)
اللہ پاک کے ناموں میں حق واستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے
ہے:
1) اس کے ناموں کو
کچھ بگاڑ کر غیروں پر اطلاق کرنا۔ جیسا کہ مشرکین نے "اِلٰہ" کا "لات "اور "عزیز" کا
"عُزّی" اور " منان" کا "منات" کر کے اپنے بتوں کے
نام رکھے تھے۔ یہ ناموں میں حق سے تجاوز اور نا جائز ہے۔
2) اللہ پاک کے لئے
ایسا نام مقرر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو۔ یہ بھی جائز نہیں جیسے کہ
اللہ پاک کو سخی کہنا کیونکہ اللہ پاک کے أسماء توقیفی ہیں۔
3) حسن ادب کی
رعایت نہ کرنا۔
4) اللہ پاک کے لئے کوئی ایسا نام مقرر کیا جائے جس کے معنی
فاسد ہوں یہ بھی بہت سخت ناجائز ہے۔ جیسے کے لفظ رام اور پرماتما وغیرہ۔
5) ایسے اسماء کا اطلاق کرنا جن کے معنی معلوم نہیں اور یہ
نہیں جانا جا سکتا کہ وہ جلالِ الٰہی کے لائق ہے یا نہیں۔(خازن،الاعراف 2/164)
الحاد فی الاسماء
کہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ غیراللہ پراللہ پاک کے ان ناموں کو إطلاق کیا جائے جو
اللہ پاک کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے کسی کا نام رحمٰن، قُدُّوس، خالق، قدیر رکھنا یا
کہہ کر پکارنا، ہمارے زمانے میں یہ بلا بہت عام ہے کہ عبدالرحمٰن کو رحمٰن،
عبدالخالق کو خالق اور عبدالقدیر کو قدیر
وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں یہ حرام ہے اس سے بچنا لازم ہے۔(صراط الجنان فی تفسیر
القرآن 3/484)