قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے۔قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(پ 23، یسٓ: 65)ترجمۂ کنز العرفان:آج (قیامت کےدن) ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔تفسیر صراط الجنان میں آیت مبارکہ کے تحت مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں:اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے :ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم! ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ پاک ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔(تفسیرخازن ، یس ٓ، تحت الآیۃ : 65 ، 4 / 10 ، تفسیرمدارک ، یسٓ ،تحت الآیۃ : 65 ، ص 992 ، تفسیرجلالین ، یس ٓ، تحت الآیۃ : 65 ، ص 372 ، ملتقطاً ) معلوم ہوا!بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں گے اور اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہُ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے،بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا:ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں ا س کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ پاک ناراض ہو گا۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص 1587 ، الحدیث: 16(2968) ) یاد رہے! مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لئے نہ ہو گی بلکہ اعضا کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔(صراط الجنان، سورہ یس، تحت الآیۃ 65) امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہِ فرماتے ہیں اے انسان! تجھے اپنے کریم رب پاک کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ تو دروازے بند کرکے،پردے لٹکاکر اور لوگوں سے چھپ کر فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہوگیا! (تو لوگوں کے خبردار ہونے سے ڈرتا ہے حالانکہ تجھے پیدا کرنے والے سے تیرا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ) جب تیرے اَعضا تیرے خلاف گواہی دیں گے (اور جو کچھ تو لوگوں سے چھپ کر کرتا رہا وہ سب ظاہر کر دیں گے) تو اس وقت تو کیا کرے گا۔(احیاء علوم الدین، 276/5)(صراط الجنان، الانفطار، تحت الآیۃ: 13-19)

چھپ کے لوگوں سے کیے جس کے گناہ وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے(حدائق بخشش)

اللہ کریم ہمیں خوب نیکیاں کرنے اور اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم