تفسیر ابنِ کثیر:وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَاءُ اللہ اِلَی النَّارِ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَ۔انسان
اپنا دشمن آپ ہے، یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا
اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے، جیسے
فرمان ہے:وَنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلیٰ جَہَنَّمَ وِرْدًا۔( مریم:86)یعنی
گناہ گاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے، انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا اور ان
کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست، ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گے، تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے، ہر عُضوِ بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا، اس وقت یہ اپنے اعضاء کی طرف متوجّہ ہوکر انہیں ملامت کریں گے کہ تم نے ہمارے
خلاف گواہی کیوں دی، وہ کہیں گے:اللہ پاک
کے حکم کی بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا، وہی توہمیں ابتداءً پیدا کرنے والا ہے، اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے، خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون
کر سکتا ہے؟براز میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک
مرتبہ مسکرائے یا ہنس دئیے، پھر فرمایا: تم
میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے؟ صحابہ نے کہا: فرمائیے کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا:قیامت
کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا، کہے گا:اے
اللہ پاک!
کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا؟اللہ پاک اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا :میں تو
اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا، اللہ پاک فرمائے گا :کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں
کی شہادت نا کافی ہے؟ لیکن پھر بھی وہ بار
بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا، پس اتمامِ حُجّت
کے لئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا: اس نے جو
جو کیا تھا، اس کی گواہی تم دو، جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں
ملامت کرے گا اور کہے گا : میں تو تمہارے ہی بچاؤ کے لئے لڑ جھگڑ رہا تھا۔(مسلم،
نسائی)
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں: ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ پاک
کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہم سے پوچھا:تم
نے حبشہ کی سر زمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ، اس پر ایک نوجوان نے کہا: ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے، ان کے علما کی ایک
بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آ رہی تھی، انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا، جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا، وہ اُٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی:مکار
تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا، جب کہ اللہ پاک
اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے
اور ایک ایک عمل کھل جائے گا، اس وقت تیرا
اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا، یہ سن کر حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمانے لگے: اس
نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، اس قوم کو اللہ پاک
کس طرح پاک کرے، جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے۔ ابن
عباس رضی اللہُ عنہ کا فرمان ہے : جب مشرکین دیکھیں گے کہ
جنت میں سوائے نمازیوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے: آؤ ہم بھی انکار کر دیں، چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار
کردیں گے، اسی وقت ان کے منہ پر مہر لگ جائے
گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ پاک
سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم
فرماتے ہیں:کافروں کے سامنے جب ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں
گے اور اپنی بے گناہی بیان کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا:یہ ہیں تمہارے پڑوسی، یہ تمہارے
خلاف شہادت دے رہے ہیں، یہ کہیں گے:یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا: اچھا خود تمہارے
کنبے کے، قبیلے کے لوگ موجود ہیں، یہ کہہ دیں گے:یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا:اچھا
تم قسمیں کھاؤ، یہ قسم کھا لیں گے، پھر اللہ پاک انہیں گونگا کر دے گا، اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کی بداعمالیوں کی گواہی
دیں گے، پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے
گا۔ (تفسیر
ابن جریر طبری، 25888، ضعیف)قیامت کے دن ہر انسان کے گناہوں پر آٹھ
گواہ ہوں گے، ان گواہوں میں انسان کے اعضاء
بھی گواہ کے طور پر شامل ہوں گے، انسان کے
جسم کے باقی اعضاء ہاتھ، پاؤں یہ بھی گواہی
دیں گے۔(
یسٓ: 25)یہ
ان کے لئے ہوگا جو اپنے جرموں کا انکار کریں گے، معلوم ہوا! ربّ کریم صرف اپنے علم پر سزا جزا نہ دے گا، بلکہ گواہی وغیرہ سے تحقیقات کرکے۔(نورالعرفان)خیال
رہے ! کاتب اعمال فرشتے، خود نامہ اعمال اور
زمین و آسمان کافر کے خلاف گواہی دیں گے اور زمین و آسمان کافر کے خلاف گواہی دیں گے، لیکن جب وہ انکار ہی کئے جائے تو تب خود اس کے اعضاء
سے گواہی دلوائی جائے گی، معلوم ہوا! کافر
کی زبان وہاں بھی جھوٹ سے باز نہ آئے گی، باقی
اعضاء سچ سچ عرض کر دیں گے ، اس کی زبان بڑی
مجرم ہے، لبوں پر مہرِ دائمی نہ ہوگی، اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔