اللہ پاک نے ہمیں اَن گنت نعمتوں سے نوازا ہے، جس کا شمار کرنا ہم جیسے انسانوں کے بس کی بات
نہیں، صبح سے لے کر شام تک اور سَر سے لے
کر پاؤں تک ہر ہر چیز اللہ کریم کی نعمت ہے کہ آنکھ ہی کو لے لیجئے کہ اگر پَل
بھر کے لئے بند ہو جائے تو انسان کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو جاتی ہے، انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہمارے اعضاء ہیں کہ
ان نعمتوں کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔اللہ کریم نے جیسے ان اعضاء کو پیدا فرما کر
اپنی شانِ قدرت کو ظاہر کیا، وہیں یہ حکم
بھی ارشاد فرمایا : ان اعضاء کو نیک کاموں میں استعمال کرو، کیونکہ انسان دنیا میں جس طرح کسی جگہ پر کوئی نیکی
کرتا ہے تو وہ جگہ اس کے نیک کام پر گواہ ہو جاتی ہے، اسی طرح ان ا عضاء سے کئے گئے نیک و بد اعمال اس
پر گواہ ہوں گے۔اس بات کا ثبوت خود قرآن کریم میں موجود ہے، جیسے اللہ پاک نے پارہ 23، سورہ یٰسین کی آیت نمبر 65 میں ارشاد فرمایا:ترجمہ:آج
ہم ان کے ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے
پاؤں ان کاموں کی گواہی دیں گے، جو وہ
کرتے تھے۔اس آیت میں صرف ہاتھوں اور پیروں کے کلام کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور مراد
یہ ہے کہ مجرموں کے تمام اعضاء کلام کریں گے اور ان اعضاء سے جس قدر بُرے کام کئے
جاتے تھے، ان کا ذکر کریں گے، بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ جس طرح مجرموں کے اعضاء
ان کی برائیوں کو بیان کریں گے، اسی طرح نیک
مسلمانوں کے اعضاء ان کی نیکیوں کو بیان کریں گے، اس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے:حضرت بسیرہ
رضی اللہُ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم تسبیح اور تہلیل اور تقدیس پڑھنے
کو لازم کر لو اور پَوروں(انگلیوں کے سروں)سے ان کا شمار کیا کرو، کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے کلام
طلب کیا جائے گا اور تم (ان کو پڑھنے سے) غافل نہ ہو اور اللہ پاک کی رحمت کو بھول نہ جانا۔تسبیح(سبحان
اللہ)تہلیل(لا الہ الا اللہ)اور تقدیس سبحان الملک القدوس یا سبوح یا قدوس رب الملائکہ وروح کو کہتے ہیں۔اس
سے یہ معلوم ہوا!پَورے قیامت کے دن گواہی دیں گے، جب ان سے سوال کیا جائے گا: تم نے ان انگلیوں سے
کیا کام لیا تھا اور ان سے کلام طلب کیا جائے گا، یعنی یہ انگلیاں قیامت کے دن اپنے صاحب کے موافق
ہو یا مخالف گواہی دیں گی، جیسا کہ سورہ ٔنور،
آیت نمبر 24 میں ربّ کریم کا ارشاد ہے:جب ان کے متعلق ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پیر گواہی دیں گے، وہ دنیا میں کیا عمل کرتے تھے۔مجرمین کے اعضاء
ان کے خلاف گواہی دیں گے:قیامت کے دن مجرمین کے اعضاء سے ان کے خلاف گواہی طلب کی
جائے گی۔اس لئے اللہ پاک نے ان کے خلاف گواہی کے لئے ان کے اپنے اعضاء میں کلام پیدا فرمادیا، مجرموں کے اعضاء جو مجرموں کے خلاف گواہی دیں گے،
اس کے متعلق حسبِ ذیل حدیث مبارکہ ہے:حضرت
انس بن مالک رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ
ہنس پڑے، آپ نے پوچھا: کیا تم کو معلوم ہے
کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ ہم نے عرض کیا:اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو زیادہ علم ہے ، آپ نے فرمایا:مجھے بندہ کی اپنے ربّ سے اس بات
پر ہنسی آتی ہے کہ بندہ کہے گا:اے میرے ربّ! کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہ دی تھی، اللہ پاک فرمائے گا:کیوں نہیں، بندہ کہے گا:آج میں اپنے خلاف اپنے سوا کسی اور کو گواہی دینے کی اجازت نہ دوں
گا، اللہ پاک فرمائے گا:آج تمہارے
خلاف تمہاری اپنی گواہی کافی ہوگی یا کراماً کاتبین کی گواہی کافی ہوگی، آپ نے
فرمایا:پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے
گی اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا:تم بتاؤ، پھر اس کے اعضاء اس کے اعمال کو بیان کریں گے، پھر اس کے کلام کے درمیان تخلیہ کیا جائے گا، پھر وہ اپنے اعضاء سے کہے گا:دور ہو، دفع ہو، میں تمہاری طرف سے ہی تو جھگڑ رہا تھا۔( تبیان القرآن)مونہوں پر
مہر لگانے کی وجہ:قیامت کے دن مجرموں کے مونہوں پر جو مہر لگا دی جائے گی، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چونکہ مشرکین قیامت کے
دن یہ کہیں گے: ترجمہ:اور ہمیں اپنے ربّ کی
قسم، ہم مشرک نہ تھے۔تو چونکہ مشرکین اپنے
شِرک کرنے کا انکار کریں گے اور جھوٹ بولیں گے، اس لئے اللہ پاک ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، حتی کہ ان کے اعضاء کلام کریں گے اور وہ بتائیں گے کہ وہ شرک کرتے
تھے، دنیا میں کفار کی سرکشی اور گستاخی کی
وجہ سے اللہ
پاک نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اور آخرت میں جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان
کے مونہوں پر مہر لگا دے گا۔اللہ کریم ہمیں اپنے اعضاء کو نیک کاموں میں استعمال
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین