جمعہ  کا حکم: جمعہ فرضِ عَین ہے اور اس کی فرضیّت ظُہر سے زیادہ مُؤَکَّد (یعنی تاکیدی) ہے اور اس کا منکِر (یعنی انکار کرنے والا) کافِر ہے۔( بہارِ شریعت، 1/762)

جمعۃُ المُبارَک کے فضائل کے تو کیا کہنے !اللہ کریم نے جمعہ کے متعلق ایک پوری سورت ’’ سُوْرَۃُ الْجمعہ “ نازِل فرمائی ہے جو کہ قراٰنِ کریم کے 28ویں پارے میں جگمگا رہی ہے۔ اللہ پاک سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)

سب سے پہلا جمعہ : حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب ھجرت کر کے مدینۂ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاول پیرشریف کو چاشت کے وقت مقام قباء میں اقامت فرمائی ۔ پیرشریف منگل،بدھ،جمعرات یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ۔ روز جمعہ مدینہ طيبہ کا عزم فرمایا، بنی سالم ابن عوف کے بطن وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا۔ سرکار مدینہ منورہ،سردار مکہ مکرمہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ فرمایا۔ (خزائن العرفان ص 884)

آپ نے مکمل کتنے جمعے ادا فرمائے: حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تقریباً 500 جمعے ادا فرمائے ہیں اس لئے کہ جمعہ بعدِ ھجرت شروع ہوا، جس کے بعد دس سال آپ کی ظاہری زندگی شریف رہی۔ اس عرصے میں جمعے اتنے ہی ہوتے ہیں۔ (مراٰۃ لامناجیح،2/346،تحت الحدیث:1415)

(1)نمازِ جمع کی فضیلت: صحابی ابن صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ اَلْجمعۃُ حَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع لِلسُّیُوطی ، 4/84، حدیث:11108، 11109)

(2)جمعہ کے لئے جلدی نکلنا حج ہے: اللہ پاک کے آخری رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فر مایا :بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی، 3/342،حديث: 5950)

(3) فرشتے خوش نصیبوں کے نام لکھتے ہیں: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ گرامی ہے: جب جمعہ کا دن آتاہے تو مسجِد کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک اُونٹ صدقہ کرتا ہے، اور اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صدقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صدقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا صدقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے) بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں۔(صَحیح بُخاری ، 1/319،حدیث:929)

(4) جمعہ تا جمعہ گناھوں سے مُعافی:حضرتِ سیِّدُناسَلمان فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ سلطانِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نَماز اس کے لئے لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری، 1/306،حدیث:883)

(5) 3 جمعے سستی سے چھوڑنے سے دل پر مہر: حضور نبیِ رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جو شخص تین جمعہ (کی نَماز) سُستی کے سبب چھوڑے اللہ پاک اس کے دل پر مُہر کر دے گا۔(سنن ترمذی ، 2/38،حدیث:500)

لہٰذا ہمیں نمازِ جمعہ پابندی سے پڑھنا چاہیے، سستی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ پاک نیک اعمال میں استقامت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم