روزہ کی شرعی حیثیت:

"روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنے کا نام ہے"۔ (بہار شریعت ج1، ح5، ص966)

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں:مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو شَہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فِتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی عزوجل کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔(کشف المحجوب، صفحہ354/353)

روزہ کی اقسام:

کتب فقہ میں روزہ کی 8 اَقسام بیان ہوئی ہیں :

1۔ فرضِ معیّن (ماہ رمضان کے روزے)

2۔ فرضِ غیر معیّن (ماہ رمضان کے قضا شدہ روزے)

3۔ واجب معیّن (کسی خاص دن یا تاریخ میں روزہ رکھنے کی منت مانیں تو اسی دن یا تاریخ کو روزہ رکھنا واجب ہے)

4۔ واجب غیر معیّن (کفارے کے روزے، نذرِ غیر معین کے روزے اور توڑے ہوئے نفلی روزوں کی قضا)

5۔ سنت (محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کے روزے، عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ اور ایامِ بیض یعنی ہر قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے)

6۔ نفل (ماہ شوال کے چھ روزے، ماہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کا روزہ، سوموار، جمعرات اور جمعہ کا روزہ)

7۔ مکروہ تنزیہی (محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ کا روزہ، صرف ہفتہ کے دن کا روزہ رکھنا، عورت کا بلااجازتِ خاوند نفلی روزہ) رکھنا

8۔ مکروہ تحریمی (عید الفطر اور ذوالحجہ کی دس سے تیرہ تک کے روزے)۔

روزہ رکھنا انبیائے کرام   عَلَیْہِم السَّلَام کا طریقہ ہے:

(1) حضرت آدَم صَفِیُّ اللہ علیہ السلام نے (چاند کی)  13،  14، 15 تاریخ کے  روزے رکھے۔ (کنزالعُمّال 8/258،حدیث:24188)

(2) صَامَ نُوْحٌ الدَّہْرَ اِلَّا یَوْمَ الْفِطْرِ وَیَوْمَ الْاَضْحٰی۔ یعنی(حضرتِ)   نوح نَجِیُّ اللہ (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  عیدالفطر اور عیدالاضحی کے  علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔

 (ابن ماجہ 2/333، حدیث :1714 ) 

(3) حضرتِ سلیمان علیہ السلام تین دن مہینے کے  شروع میں  ، تین دن درمیان میں  اور تین دن آخر میں  (یعنی اس ترتیب سے مہینے میں  9دن)روزہ رکھا کرتےتھے۔

(4) حضرت عیسیٰ روحُ اللہ علیہ السلام ہمیشہ روزہ رکھتے تھے کبھی نہ چھوڑتے تھے۔

(ابنِ عَساکِر 24/48)

(5)  (حضرتِ)  داؤد علیہ السلام  ایک دن چھوڑ کرایک دن روزہ رکھتے تھے۔

 (مسلم ص 584، حدیث :1159 )   

"نفلی روزوں کے فضائل"

فرض روزوں کے  علاوہ نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہئے کہ اس میں  بے شمار دینی و دُنیوی فوائد ہیں اور ثواب تو اِتنا ہے کہ مت پوچھو بات! آدمی کا جی چاہے کہ بس روزے رکھتے ہی چلے جا ئیں ۔ دینی فوائد میں  ایمان کی حفاظت ، جہنَّم سے نَجا ت اور جنت کا حصول شامل ہیں اور جہاں تک دُنیوی فوائد کاتعلق ہے تودن کے  اندر کھانے پینے میں  صرف ہونے والے وَقت اور اَخراجا ت کی بچت،  پیٹ کی اِصلاح اور بہت سارے اَمراض سے حفاظت کا سامان ہے ۔ اور تمام فوائد کی اَصل یہ ہے کہ روزے دارسے اللہ پاک راضی ہو تاہے۔

احادیثِ مبارکہ میں فرض روزوں کی تاکید کی گئی ہے تو نفلی روزوں کے بھی فضائل کو بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند ذکر کرتا ہوں:

(1) اللہ پاک پارہ 22 سُوْرَۃُ الْاَحْزَاب کی آیت نمبر 35میں  ارشاد فرماتا ہے: وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)

ترجمہ کنزالایمان: اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ( اور روزے والے اور روزے والیاں) کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔ منقول ہے: جس نے ہر مہینے ایام بیض (یعنی چاند کی 13، 14، 15 تاریخ) کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (تفسیرِ مدارک 2/345)

(2) جس نے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھااللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے  برابر) دُور فرمادے گا۔

(جَمعُ الجَوامع 7/190،حدیث:22251)

(3) حضرت سَیِّدَتنا اُمِّ عمارَہ بنت کعب رضی اللہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں :  سلطانِ دو جہان،  شہنشاہِ کون و مکان،  رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے،  میں  نے کھاناپیش کیا تو ارشاد فرمایا:   ’’ تم بھی کھاؤ! ‘‘  میں  نے عرض کی:   ’’  میں  روزے سے ہوں ۔ ‘‘  تو فرمایا:   ’’  جب تک روزے دار کے  سامنے کھانا کھایا جا تا ہے فرشتے اُس روزہ دار کے  لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔

(تِرمذی 2/205،حدیث:785)

(4) صُوْمُوْا تَصِحُّوا۔یعنی روزہ رکھوتَندُرُست ہو جا ؤ گے۔

(مُعْجَم اَوْسَط 6/146،حدیث:8312)

(5) قیامت والے دن روزہ داروں کیلئے ایک سونے کا دستر خوان رکھا جا ئے گا ،  جس سے وہ کھائیں گے حالانکہ لوگ (حساب کتا ب کے ) مُنتظِر ہوں گے۔

(کَنْزُ الْعُمّال 8/214،حدیث:23640)

(6) جس کو روزے نے کھانے یا پینے سے روک دیا کہ جس کی اسے خواہش تھی تو اللہ پاک اسے جنتی پھلوں میں  سے کھلائے گااور جنتی شراب سے سیراب کرے گا۔ (شُعَبُ الْایمان 3/410،حدیث:3917)

(7) حضرت سَیِّدُنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ بروزِقیامت ایک منادی اس طرح ندا کر ے گا ، ہر بونے والے (یعنی عمل کرنے والے) کو اس کی کھیتی (یعنی عمل) کے  برابر اَجر دیا جا ئے گا سوائے قراٰن والوں ( یعنی عالم قراٰن ) اور روزہ داروں کے  کہ انہیں بے حد و بے حساب اَجر دیا جا  ئے گا ۔

(شُعَبُ الایمان 3/413،حدیث:3928)

(8) سرکار مدینہ، صاحِبِ مُعطّر پسینہ، باعثِ نزولِ سکینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: رَمضان کے  بعد سب سے افضل شعبان کے  روزے ہیں ،  تعظیمِ رَمضان کیلئے۔( شُعَبُ الْایمان 3/377،حدیث:3819)

(9) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن ابی قیس رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے سنا:  انبیا کے  سرتاج صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ مہینہ شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں  روزےرکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمبارَک سے ملادیتے۔ ( ابوداوٗد 2/476،حدیث :2431)

(10)حضور اکرم،  نُورِ مُجَسَّم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :  ’’ رَمضان کے  بعدمُحرَّم کا روزہ افضل ہے اورفر ض کے  بعد افضل نماز صَلٰوۃُاللَّیل (یعنی رات کے  نوافِل)  ہے۔“

( مسلم  ص591حدیث:1163)

اللہ پاک ہمیں بھی نفلی روزہ رکھنے اور اس کی بر کتیں حاصل کرنے کی توفیق و سعادت عطا فر مائے۔