حضرت  ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:روزہ دار کا ہر بال اس کے لئے تسبیح کرتا ہے، بروزِ قیامت عرش کے نیچے روزہ داروں کے لئے موتیوں اور جَواہر سے جَڑا ہوا سونے کا ایسا دستر خوان بچھایا جائے گا، جو اِحاطۂ دنیا کے برابر ہوگا، اس پر قسم قسم کے جنتی کھانے، مشروب اور پھل فروٹ ہوں گے،وہ کھائیں پئیں گے اور عیش و عشرت میں ہوں گے،حالانکہ لوگ سخت حساب میں ہوں گے۔

(الفر دوس بماثورالخطاب، جلد 5، صفحہ 490، حدیث 8853، مدنی پنج سورہ، صفحہ 297)

سبحان اللہ!میرے ربّ کی نعمتوں کی کیا بات ہے! ذرا سوچئے! اللہ پاک کتنا مہربان ہے کہ چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے ثوابوں کے وعدے فرماتا یعنی ربِّ کائنات اپنی رضا کے لئے کئے جانے والے اعمال پر بہت خوش ہوتا ہے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ وہ ماں جس کا بیٹا ناراض ہو کر کھانا نہ کھائے تو وہ کتنی منتیں سماجتیں کر کے اولاد کو راضی کرتی ہے اور یہ تو انسان کی محبت کا معاملہ ہے، سوچیں!جب کوئی بندہ مؤمن اپنے ربّ کریم کی رضا کے لئے صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو کریم ربّ کو اپنے بندے پر کتنا پیار آتا ہوگا، پھر اس کی رحمت بندہ مؤمن کو ابدی نعمتوں کی طرف لے جاتی ہے، ہم یہاں اپنے ربّ کی مزید رحمتوں کا ذکر کئے دیتی ہیں:

دوزخ سے دوری

میرے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا،اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال(کا فاصلہ) دور فرما دے گا۔(کنزالعمال، جلد 8، صفحہ 255، حدیث،24149، مدنی پنج سورہ، صفحہ295)

ڈھیروں ڈھیر ثواب

خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے، جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا،اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔(المسند ابی یعلی، جلد 5، صفحہ 353، حدیث 6104، مدنی پنج سورہ، صفحہ295)

گناہ مٹتے ہیں

روایت ہے:جس سے ہو سکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ دس گناہ مٹاتا اور گناہ سے ایسا پاک کر دیتا ہے جیسا پانی کپڑے کو۔(المعجم الکبیر، جلد 25، صفحہ 35، حدیث 60، مدنی پنج سورہ، صفحہ 303)

جنت کا داخلہ

روایت ہے:جس نے رمضان، شوال، بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھا تو وہ داخلِ جنت ہوگا۔(السنن الکبری النسائی، جلد 2، صفحہ 147، حدیث 2778، مدنی پنج سورہ، صفحہ 307)

محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی،رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پیر اور جمعرات کو اَعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اُس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔(سنن ترمذی، جلد 2، صفحہ 187، حدیث 747،مدنی پنج سورہ، صفحہ304)

اللہ اکبر! گناہوں سے معصوم آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شان دیکھئے! واہ وا! کیا انداز ہے تبلیغ کا!فرمایا:میں پسند کرتا ہوں یعنی میرے عاشق وہ کریں گے جس کو میں پسند کرتا ہوں۔ ارے یہی تو انداز ہوتا ہے محبوبوں کا، وہ تو اپنے دیوانوں کو یہی کہتے ہیں :مجھے یہ پسند ہے! کہ دیکھو! دیوانہ ہے نا، بس اب ضرور کرے گا ، اِسے اور کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔

بات یہیں پر ختم نہیں، اب مُحب(محبت کرنے والے) کی باری ہے، دیکھیں کہ وہ کتنا کچھ کر کے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پسند کے کام کرتا ہے، ویسے یہ عشق کی بات ہے اور اِسے عاشق ہی سمجھ سکتا ہے اور یہ اشارہ عُشاق کے لئے کافی وافی ہے۔