نفل روزے کو عربی میں صِیَامُ التَّطَوُّع کہا جاتا ہے۔تعریفات:روزے کے لغویٰ معنی رُکنا، اصطلاحِ شریعت میں صبحِ صادق سے لے کر غروبِ
آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے رُکےرہنے کو روزہ کہتے ہیں۔تطوع طوع سے بنا ہے، جس کے معنی رغبت و خوشی ہے، ربّ پاک فرماتا ہے:ترجمۂ
کنزالایمان:دونوں نے عرض کیا ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے ۔(11،41)
نفلی عبادات کو تطوع اس لئے کہا جاتا ہے کہ بندہ ہر وہ عبادت اپنی خوشی سے
کرتا ہے،جو ربّ پاک نے اس پر فرض نہ کی ہو، مطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزے ربّ پاک نے اپنے بندوں پر فرض کئے ہیں، اگر کوئی مسلمان اپنی خوشی سے فرض روزے بھی
رکھنے کے ساتھ ساتھ نفل روزے رکھتا ہے تو بے شمار خزانہ ہاتھ آتا ہے، ربّ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے، اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص کسی دفتر
میں چھ گھنٹے کام کرتا ہے تو ایک ماہ بعد اس کو اس کی مزدوری دے دی جاتی ہے، لیکن چھ گھنٹے کے ساتھ ساتھ اگر وہ اَوور ٹائم
بھی لگاتا ہے اور اپنے کام کو ایمانداری سے کرتا ہے تو اس کا مالک اس سے راضی ہوتا
ہے اور اس 6 گھنٹے کی مزدوری کے ساتھ ساتھ اسے اَوور ٹائم کی بھی مزدوری دیتا ہے، بالکل اِسی طرح رمضان کے روزے تو رکھنے ہی رکھنے
ہیں، اگر اس کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ
نفل روزے کا بھی شوقین ہو تو ذرا غور کریں کہ کیا ہمارا ربّ کریم ہم سے راضی نہ
ہوگا، کیا وہ ہمیں اپنا پیارا بندہ نہ
بنائے گا، اللہ پاک کو تین چیزیں بہت پسند
ہیں:
1۔جوانی کی
عبادت، 2۔سردی کا وضو، 3۔گرمی کے روزے۔
روزے اللہ پاک کی پسندیدہ چیزوں میں سے ایک پسندیدہ چیز ہے، جب عاشق کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ وُہی ادائیں اپناتا
ہے، جو اس کے محبوب کو پسند ہوتی ہیں، ہر وہ کام کرتا ہے جس سے اس کا محبوب راضی رہے
اور ہر اس کام سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے اس کا محبوب خفا ہو تو اللہ پاک کی پسند کو اپنا بنانے کی کوشش
کرنی چاہئے، اللہ پاک تو ہر نیکی پر اَجر عطا فرماتا ہے، اللہ پاک کو ہماری عبادتوں کی کوئی حاجت نہیں ہے،
بلکہ یہ عبادتیں ہمیں اپنے ربّ کے قریب
کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور نیکیوں میں اضافہ فرما کر ہمیں جنت میں داخلے کا سبب
بنتی ہیں۔
روزہ ایک بہت عظیم عبادت ہے، روزہ دار
کا سونا عبادت، اس کی خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی دعا قبول اور اس کا عمل مقبول
ہوتا ہے، روزے دار کے مُنہ کی بدبو اللہ پاک
کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پیاری ہے، نفلی روزے رکھنا تو ہمارے پیارے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت مبارکہ ہیں،آپ رمضان المبارک میں کثرت سے عبادت کے
شوقین تھے،آپ کے نفل روزے رکھنے کے بھی کیا ہی کہنے، مرحبا!اس بارے میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ
فرمائیے:
1۔حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :رسول
اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم پیر شریف
اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے۔( مراۃالمناجیح، ج3، ص202، حدیث1957)
2۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں،
لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال
میں پیش ہوں کہ میں روزہ والا ہوں۔( مراۃالمناجیح، ج3، ص203، حدیث1958)
3۔حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک مہینے میں ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے تھے اور دوسرے مہینے
منگل، بدھ اور جمعرات کا۔( مراۃالمناجیح، ج3، ص204، حدیث1961)یعنی میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے روزے تقسیم کر دیتے تھے، تاکہ کوئی دن حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مہینے میں تین دن اور دوسرے مہینے میں اگلے تین دن روزے
رکھتے تھے،نبی پاک صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی
عبادات سے دن برکت پاتے تھے، جیسے ہم چاند
سے روشنی پاتے ہیں اور چاند سورج سے۔
4۔رسول
اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو روزے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:ابوذر! جب تم
ہر مہینے میں تین روزے رکھو تو تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کے رکھ لیا کرو، کیونکہ اللہ پاک ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا
ثواب عنایت فرماتا ہے ۔ اگر مسلمان تین روزے رکھے تو اسے تیس نیکیوں کا ثواب ملے
گا، روزے کی برکت سے رحمتِ الٰہی کا دریا
جوش مارتا ہے۔ہر شے کی زکوٰۃ ہے، جیسا کہ
مال کی زکوٰۃ ہے، اسی طرح روزے کی بھی
زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔روزے کی برکت سے آدمی دُبلا
ہوجاتا ہے، گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے،جسم کا گوشت گل جاتا ہے،بہت سی بیماریوں سے
محفوظ رہتا ہے۔ غرض یہ کہ روزے کی برکت سے
آگ روزے دار تک نہ پہنچ سکے گی، کیوں کہ
روزہ زکوٰۃ کے تینوں کام کرتا ہے۔
نفلی روزے کی بے شمار برکتیں ہیں، بندۂ مومن اگر ایک دن کانفل روزہ بھی اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے اور پیارے
آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی سنت ادا کرنے
کے لئے رکھتا ہے اور اگر اللہ پاک اسے قبول و منظور فرمائے تو وہ دوزخ میں تو کیا دوزخ کے قریب بھی نہ ہوگا اور وہاں کی ہوا بھی
محسوس نہ کرے گا۔
مرحبا صد مرحبا!فرض عبادتیں تو جو ہیں سو ہیں ہی، نفل عبادتوں کے بھی کیا کہنے!اللہ پاک عمل کرنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنی عبادتیں کرنے اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ریاضت کے یہی دن ہیں، بڑھاپے میں کہاں
ہمت جو کچھ کرنا
ہے اب کر لو، ابھی نوری جواں تم ہو