قرآنِ کریم
اللہ پاک کا بے مثل کلام ہے۔قرآنِ مجید
نازل ہونے کی ابتدا رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوئی جبکہ مکمل نزول پیارے آقا ﷺ کے
ظاہری وصال سے قبل تقریبا 23 سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا حالات و واقعات کے حساب
سے ہوا۔ الله پاک نے اپنا یہ کلام رسولوں کے سردار،دو عالم کے تاجدار،حبیبِ بے
مثال ﷺ پر نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے آپ ﷺ لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے اور
دینِ حق کی پیروی کرنے کی طرف بلائیں اور شرک و کفر و نافرمانی کے انجام سے ڈرائیں،
لوگوں کو کفر و شرک اور گناہوں کے تاریک راستوں سے نکال کر ایمان اور اسلام کے
روشن اور مستقیم راستے کی طرف ہدایت دیں اور ان کے لیے دنیاو آخرت میں فلاح و
کامرانی کی راہیں آسان فرمائیں۔قرآنِ مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان یعنی عربی میں
نازل کیا گیا تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔ کتاب الله مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت،
بشارت،
نصیحت اور شفا
ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠(۸۹) (النحل:89) ترجمہ کنز العرفان: اور مسلمانوں کے لیے ہدایت
اور رحمت اور بشارت ہے۔
کتاب الله کےبہت
سے حقوق ہیں۔جن کا ذکر قرآن و حدیث میں جابجا موجود ہے:
(1)قرآنِ
مجید کی تلاوت کرنے والے کو خیال رکھنا چاہئے کہ آہستہ پڑھے اور اس کے معانی میں
غور وفکر کرے،تلاوت ِقرآن کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔چنانچہ ارشاد ِباری ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ
تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ29،المزمل:4) ترجمہ:اور قرآن خوب ٹھہر
ٹھہر کر پڑھو۔
امیرالمومنین
حضرت علی المرتضی، شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ ترتیل کے کیا
معنی ہیں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا:”تَجْوِیدُ الْحُرُوفِ وَمَعْرِفَۃُ
الْوُقُوْفِ“ترتیل
حروف کو عمدگی سے(مخارج اور صفات کے ساتھ ) ادا کرنا اور وقف کی جگہوں کو پہچاننے
کا نام ہے۔
(2)
قرآنِ پاک کو خوش آوازی سے پڑھنا: جہاں تک ممکن ہو قرآنِ پاک کو خوش
الحانی (اچھی آواز) کے ساتھ پڑھیں۔ سیدالمرسلین، شفیع المذنین، رحمۃ للعالمین ﷺ کا
فرمانِ عالیشان ہے:زَیِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُم
ترجمہ: قرآن کو اپنی آوازوں سےزینت دو۔(بخاری،4/592)
(3) تعظیم ِقرآن:قرآنِ عظیم
کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے،اس سے محبت کی جائے، اس کی تلاوت کی جائے،اسے
سمجھا جائے،اس پر ایمان رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور قرآن عظیم کی اس طرح
تلاوت کریں جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے، باوضو ہوکر، قبلہ رو ہو کر، مؤدب ہو کر اور
عجز وانکساری کے ساتھ بیٹھے۔
حضرت
عبیدہ مُلیکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے قرآن والو! قرآن کو تکیہ نہ
بناؤ یعنی سستی اور غفلت نہ برتو اور دن اور رات میں اس کی تلاوت کرو جیسا تلاوت
کرنے کا حق ہے اور اس کو پھیلاؤ اور تغنی کرو یعنی اچھی آواز سےپڑھو یا اس کا
معاوضہ نہ لو اور جو کچھ اس میں ہے اس پر غور کرو تا کہ تمہیں فلاح ملے، اس کے
ثواب میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس کا ثواب بہت بڑا ہے۔ (شعب الایمان، 2/350 -351، حدیث:2007-2009)
(4) وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ
اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) (پ 9،الاعراف:204) ترجمہ کنز الایمان: اور
جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔
علامہ عبدالله
بن احمد نسفی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں:اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم
پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔
(مدارك، الاعراف، تحت الآیہ: 204، ص 401)اس آیت میں قرآن کی عظمت و شان کا تقاضا بیان
کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔
(5) قرآنِ مجید کی پیروی:قرآنِ عظیم کا
ایک حق یہ بھی ہے کہ اس میں موجود احکام کی پیروی کی جائے اور ہر حکم پر پوری کوشش کر کے عمل کیا جائے
چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ
اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155)
ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری
کرو کہ تم پر رحم ہو۔
اس آیت میں موجود لفظ فَاتَّبِعُوْهُ: (تو تم اس کی
پیروی کرو) کی تفسیر تفسیر صراط الجنان میں کچھ یوں ہے: یعنی قرآنِ کریم میں مذکورہ
احکامات پر عمل کرو، ممنوعات سے باز آجاؤ اور اس کی مخالفت کرنے سے بچو تا کہ اس کی
اتباع اور عمل کی برکت سے تم پر رحم کیا جائے۔(تفسیرصراط الجنان، 3/ 247 )
افسوس! آج کا
مسلمان اس فانی دنیا میں اپنی دنیوی ترقی و خوشحالی کے لئے نت نئے علوم و فنون سیکھنے،
سکھانے میں ہر وقت مصروف عمل نظر آتا ہے جبکہ رب کریم کے نازل کردہ قرآنِ پاک کو
پڑھنے، سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے حالانکہ اس کی تعلیم کی اہمیت سے کس کو انکار
ہو سکتا ہے!
حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی
وجہ سے) قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 1/364)
آپ نے قراءت کی
اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا لیا ہوگا۔ اس لیے ہمیں ہر وقت درست قرآن پڑھنے اور سیکھنے
کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ مسلمان بڑا بد نصیب ہے جو درست قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھتا۔
یہی
ہے آرزو تعلیم ِقرآن عام ہو جائے تلاوت
شوق سے کرنا ہمارا کام ہو جائے