قرآنِ کریم وحی الٰہی ہے۔ یہ قربِ خداوندی کا ذریعہ ہے۔ رہتی دنیا تک کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔تمام علوم کا سر چشمہ ہے۔یہ ہدایت کا مجموعہ، رحمت کاخزینہ اور برکتوں کا منبع ہے۔ یہ ایسا دستور ہے جس پر عمل پیرا ہو کر  تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ جس سے گمراہی کے تمام اندھیرے دور کئے جا سکتے ہیں۔قرآنِ کریم ایسا راستہ ہے جو سیدھا اللہ پاک کی رضا اور جنت تک لے جا سکتا ہے۔

اہمیت:حضرت اياس بن معاویہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو لوگ قرآنِ پاک صرف پڑھتے ہیں ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ان کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں تو ان کے دل ڈر گئے اور انہیں معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے!اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے۔ (تفسیر قرطبی)

فوائد و ثواب: قرآنِ پاک پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں:

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ اَلنَّظْرُ فِی الْمُصْحَفِ عِبَادَۃ یعنی قرآنِ پاک کو دیکھنا عبادت ہے۔ (شعب الایمان)

الله پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ- (پ 15، بنی اسرائیل: 82) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم بیماروں کے لیے شفا ہے۔

قرآنِ پاک پر عمل بلندی اور اس سے انحراف تنزلی کا باعث ہے۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک اس کتاب کے سبب کتنی قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کتنوں کو پست کرتا ہے۔(مسلم)

قرآنِ کریم کے حقوق:

1 -قرآنِ کریم پر ایمان لانا:قرآنِ مجید کا پہلا حق ہے اس پر ایمان لانا۔ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں، جتنے صحیفے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل فرمائے ان سب پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے لازم ہے۔اللہ پاک کی نازل کردہ کسی ایک کتاب کا انکار کرنا کفر ہے۔ البتہ پچھلی آسمانی کتابوں پر اور قرآن ِکریم پر ایمان لانے میں ایک فرق ہے کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں اور صحیفے ہیں ان سب پر ایمان لانا اجمالی فرض ہے اورقرآنِ کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔ اجمالی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ الله پاک نے تورات نازل فرمائی،زبور نازل فرمائی، انجیل نازل فرمائی، اس کے علاوہ جو صحیفے نازل فرمائے وہ سب حق ہیں۔ ہاں!لوگوں نے اپنی خواہش سے ان میں جو اضافے کیے جو تبدیلیاں کیں وہ سب باطل ہیں اور تفصیلی ایمان لازم ہے۔یعنی الحمد سے لے کر والناس کے سین تک قرآن کا ایک ایک جملہ، ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف سب حق ہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔

2- قرآنِ کریم کی محبت وتعظیم:دوسرا حق ہے اس کی دل سے تعظیم کرنا اور محبت کرنا۔الحمد لله !قرآنِ کریم سے محبت کرنا سنتِ مصطفٰے ہے۔پیارے آقا،مکی مدنی مصطفٰے ﷺ قرآنِ کریم سے بہت محبت فرماتے تھے۔

ایک روز آقا کریم ﷺ اپنے گھر مبارک میں تشریف فرما تھے،کوئی شخص بہت خوبصورت آواز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہا تھا۔آپ ﷺاٹھے اور باہر تشریف لے گئے اور دیر تک تلاوت سنتے رے،پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا: یہ ابو حذیفہ کا غلام سالم ہے۔تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا فرمایا۔( ابن ماجہ، ص216،حدیث:1338 )

3-قرآنِ کریم پر عمل کرنا: قرآنِ کریم کے بیان کردہ آدابِ زندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔ پارہ 8 سورهٔ انعام آیت 155 میں ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا، اس کی کامل اتباع کرنا اور اس کے بتائے ہوئے انداز پر زندگی گزارنا ہے۔

4-قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا:قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا اس کا چوتھا حق ہے۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے کہ ہم لوگوں میں تلاوت کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ کتنے حفاظ ایسے میں جو صرف رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کھول کر دیکھتے ہیں حالانکہ ہمیں دن رات قرآنِ کریم کی تلاوت کی ترغیب دی گئی ہے۔

5- قرآنِ کریم سمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا:قرآنِ کریم کا پانچواں حق ہے اس کو سمجھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا۔نبی ِکریم ﷺ نے اس کے بے شمار وصف بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ وصف بیان فرمایا ہے: قرآنِ کریم دلیل ہے یا تو یہ تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص قرآن سیکھے مگر اس میں غفلت کرے تو قرآنِ کریم اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے لیے دلیل ہوگا جو اس میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19)

سلطان محمود غزنوی او را حترامِ قرآن: سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا:اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟سلطان محمود غزنوی نے فرمایا: ایک مرتبہ میں کہیں مہمان تھا۔ جس کمرے میں مجھے ٹھہرایا گیا وہاں قدموں کی جانب طاق میں قرآنِ کریم رکھا تھا، میں نے سوچا کہ قرآنِ کریم کو باہر بھجوا دوں، پھر خیال آیا کہ میں اپنے آرام کے لیے قرآنِ کریم کو باہر کیوں بھجواؤں؟ یہ سوچ کر میں قرآنِ کریم کی تعظیم میں ساری رات بیٹھا رہا اور اس کی طرف پاؤں نہیں کیے،بس اسی وجہ سے اللہ پاک نے مجھے بخش دیا۔ ( دلیل العارفین، مجلس: 5، ص 50)