اللہ پاک کا مقرب بندہ بننے کے لئے لیے جہاں پر
بہت ذرائع ہیں وہیں پر خوف الہی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرب
حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے
بندوں کو غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے ذکر کی طرف رغبت کے لئے کم
ہنسنے اور زیادہ رونے کے متعلق فرماتا ہے:
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ ،
انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں اور بہت زیادہ روئیں (
التوبہ، آیت 82 )
قرآن کریم میں جس طرح رونے کا حکم ہے احادیث
مبارکہ میں بھی خوف الہی میں رونے والوں کے کثیر فضائل وارد ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا ایک ذریعہ خوف خدا ۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اگر تم مجھ سے ملنا
چاہتے ہو تم میرے بعد خوف زیادہ رکھنا۔ ( خوف خدا ،ص 16)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :حکمت کی اصل اللہ
تعالیٰ کا خوف ہے (ایضا )
نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس بندے کی آنکھوں
سے خوف خدا کے سبب انسونکل کر چہرے تک پہنچتے ہیں تو اللہ اس کو آگ پر حرام فرما
دیتا ہے اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں۔( حکایتیں اور نصیحتیں ، ص 135)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: دوآ نکھیں ایسی ہیں جنہیں آگ نہیں چھوئے گی ، ایک وہ آ نکھ
جو آدھی رات میں اللہ کے خوف سے روئی اور دوسری وہ آ نکھ جس نے راہ خدا میں
نگہبانی کرتے ہوئے رات گزاری۔
(مکاشفۃ القلوب ۔ ص 396)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ہر آ نکھ روئے گی مگر جو آنکھ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے رک
گئی ، جو آنکھ راہ خدا میں بیدار رہی اور جس آ نکھ سے خوف الہی کی وجہ سے مکھی کے
سر کے برابر آ نسو نکلا وہ رونے سے محفوظ رہے گی ۔(ایضا )
حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، سرور
ِعالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو
تھوڑا ہنستے اور بہت روتے ( تفسیر صراط الجنان، التوبہ، آیت 82)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کم ہنسنے ، اپنی آخرت کے بارے
میں فکرمند ہونے اور گریہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔