خوفِ خدا کا ہونا اور خوفِ خدا میں رونا،  یہ دونوں اللہ پاک کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، جب تک یہ عظیم نعمت حاصل نہ ہو، گناہوں سے فرار نہیں حاصل ہوتا اور نہ ہی نیکیوں سے پیار ہوتا ہے، لیکن جب یہ عظیم دولت نصیب ہو جائے تو نیکیاں کرنا اور گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ خوف خدا کسی کہتے ہیں؟مطلقاً خوف سے مردا وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی نا پسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، جبکہ خوف خداکامطلب اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی،اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔(خوف خدا، ص 14) اور رونے کو عربی میں بکاء کہتے ہیں، رونا کئی طرح کا ہوتا ہے۔چنانچہ انسان فطری طور پر اس چیز کی طرف مائل ہوتا ہے، جس میں اسے کوئی فائدہ نظر آئے۔سورۃ الرحمٰن میں ربِّ کریم فرماتا ہے:وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہَ جَنَّتٰنِ۔ ترجمہ:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27:242) ایک مقام پر یوں فرمایا:اِنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ:اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے۔(پ194:2) مزید یہ فرمایا:وَاللہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ:اور اللہ ڈر والوں کا دوست ہے۔(پ25،الجاثیہ: 19) پتا چلا کہ خوفِ خدا کی کس قدر اہمیت وفضیلت ہے۔ فضائل پر مشتمل احادیث :نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مؤمن کی آنکھ سے اللہ کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔ (کنز العمال ،ج 3،ص 73) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے، عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نجات کیا ہے؟فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو ،تمھارا گھر تمھیں کفایت کرے (یعنی بلا ضرورت باہر نہ جاؤ) اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیا آپ کی امت میں کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟ فرمایا:ہاں! وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔ (احیاء العلوم، ج 4، ص 600) لہٰذا معلوم ہوا!خوف خدا کے سبب رونے والے کے لئے کس قدر فوائد ہیں، کہیں اس کے لئے دو جنتوں کی بشارت ہے تو کہیں ربِّ کریم کی ولایت کی، تو کہیں بخشش کی اور کہیں بلاحساب بخشش کی۔

میرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یاخدا یا الٰہی

خوف خدا میں رونے کی ایک فضلیت یہ بھی ہے کہ یہ سنتِ انبیا کرام ہے، کیونکہ انبیائے کرام ربِّ کریم کے چنے ہوئے بندے ہوکر بھی اس کے خوف سے خوب گریہ و زاری کرنے تھے، چنانچہ حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہُ سے روایت ہے: حضرت ابرہیم علیہ السلام خوف خدا کے سبب اس قدر گریہ و زاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گڑ گڑاہت کی آواز سنائی دیتی۔(خوف خدا،ص 45) ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے ربّ کی بر گزیدہ ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ربّ کے خوف سے خود کو ڈرائیں اور اس کی بارگاہ میں خوب گریہ وزاری کریں۔