خوف خدا کا مطلب:یاد رکھئے!مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ عمل کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر، جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔(ماخوذ من احیاء العلوم، جلد 4) اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا ہی خوفِ خدا ہے، مثلاً موت کی سختیوں کا خوف، منکر نکیر کے سوالات کا خوف، عذابِ قبر کا خوف وغیرہ وغیرہ، اگر انسان کو ان کے انجام کا علم ہوجائے تو وہ خوف خدا میں کیسے نہ مبتلا ہوگا۔خوف خدا کی فضیلت کو جاننے کے دو طریقے ہیں:1۔غورو فکر:خوف ایسی آگ ہے، جو شہوتوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے، اب یہ جتنی مقدار میں شہوتوں کو جلائے، گناہوں سے باز رکھے اور نیک اعمال کی طرف راغب کرے، اسی قدر اس کی فضیلت میں اضافہ ہوتا جائے گا، اپنے ہر عمل میں غور و فکر کرنا کہ آیا میرا یہ عمل اللہ پاک کو مجھ سے قریب کرے گا یا مجھ سے دور، اس سے بھی خوف خدا نصیب ہوتا ہے۔2۔آیات و احادیث :خوفِ خدا کی فضیلت کو جاننے کے لئے اللہ پاک نے اہلِ جنت کے چار مقامات یعنی ہدایت ، علم اور رضا کو درج ذیل آیاتِ مقدسہ میں خائفین کے لئے جمع فرما دیا ہے:1۔ترجمۂ کنزالایمان:ہدایت اور رحمت ہے ان کے لئے، جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔(پ 9، الاعراف:154)2۔ ترجمہ ٔکنزالایمان:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں، جو علم والے ہیں۔(پ22 ، فاطر:28)3۔ترجمۂ کنزالایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی،یہ اس کے لئے ہے،جو اپنے ربّ سے ڈرے۔(پ 25، البینۃ:8)یہ وہ آیات جو علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں،وہ خوف خدا کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہیں، کیونکہ خوفِ خدا علم کا پھل اور اسی کا نتیجہ ہے۔خوفِ خدا کی برکت:حضرت ابوبکر شبلی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جب بھی میں کسی دن اللہ پاک سے خوف کرتا ہوں تو اس دن مجھ پر حکمت و عبرت کا ایسا دروازہ کھل جاتا ہے، جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔دو بھلائیاں:حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو بھی مؤمن کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے دو بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں،عذاب کا خوف اور معافی کی امید(اور وہ ان دونوں کے درمیان ایسے ہوتا ہے)، جیسے دو شہروں کے درمیان موجود لومڑی۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 472)فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک کے خوف سے مؤمن کی آنکھ سے نکلنے والا قطرہ اس کے لئے دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہے اور ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(حلیۃالاولیاء، حدیث: 11748، جلد 8، صفحہ 167)خوفِ خدا شفا دیتا ہے:حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :خواہشاتِ نفس ہلاکت میں ڈالتی ہیں اور خوف خدا شفا دیتا ہے۔ یاد رکھو! تمہاری خواہشاتِ نفس اسی وقت ختم ہوں گی، جب تم اس سے ڈرو گے، جو تمہیں دیکھ رہا ہے۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 511، حدیث: 876) اسے امن میں رکھوں گا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: سرور عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم!میں اپنے بندے پر دو خوف جمع نہیں کروں گا اور نہ اس کے لئے دو امن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کروں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا۔(شعب الایمان، باب الخوف من اللہ تعالی، جلد 1، صفحہ 483 ، حدیث: 777)جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(شعب الایمان، باب الخوف من اللہ تعالی، جلد 1، صفحہ 491 ، حدیث: 803)سبز موتیوں کا محل:حضرت کعب الاحبار رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: اللہ پاک نے سبز موتی کا ایک محل پیدا فرمایا ہے، جس میں ستر ہزار کمرے ہیں،اس میں وہ شخص داخل ہوگا،جس کے سامنے حرام پیش کیا جائے اور وہ محض اللہ پاک کے خوف سے اسے چھوڑ دے۔(مکاشفۃالقلوب، صفحہ 10)اعمال کی قبولیت:خوفِ خدا اعمال کی قبولیت کا ایک سبب ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، جسے ڈر ہے۔(پ 6، المائدہ: 27)