اللہ کریم نے قران پاک میں ارشاد فرمایا:اِذَاتُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا
سُجَّدًاوَّبُکِیَّا۔ترجمہ کنزالایمان :جب ان پر
رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں، گر پڑتے سجدہ
کرتے اور روتے۔(پ 16، مریم :58)قرآن کریم
میں اللہ
کریم کے محبوب بندوں کی نشانی یہ بتائی گئی کہ وہ خوفِ خدا سے روتے
ہیں، جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَھُمْ مِنْ خَشْیَتِہ
مُشْفِقُوْنَ۔اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں۔(پ17، الانبیا:28)اللہ کریم کے خوف میں
رونا بہت فضیلت کا باعث ہے، چنانچہ فرمانِ
مصطفی ہے :اللہ پاک کو کوئی شے دو قطروں سے زیادہ پسند نہیں ۔1۔خوف ِالٰہی سے
بہنے والا آنسو کا قطرہ، 2۔اور اللہ پاک
کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ ۔(جامع
ترمذی، ابو اب فضائل الجھاد، حدیث:1669،
ص1823)سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذیشان ہے:بروزِ قیامت ہر آنکھ روئے گی، مگر وہ آنکھ جو اللہ پاک کی حرام کردہ اشیاء
سے بچی اور وہ آنکھ جو رات بھر اللہ پاک کی راہ میں جاگتی رہی اور وہ جس سے اللہ پاک
کے خوف سے مکھی کے سر کی مثل آنسو بہا۔(حلیۃ
الاولیاء، حدیث:3663، ج 3، ص
190)
رونے والی
آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ
محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہانا
مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔(احیاء العلوم، ،ج 2، ص 201)جس شخص کی آنکھوں سے خوفِ خدا کے سبب آنسو جاری ہو جائیں
اور اس کے قطرے زمین پر گریں تو جہنم کی آگ اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔(حلیۃ الاولیاء ،ج 5، ص 401، رقم 7516)حدیث: مبارکہ میں ہے: جو
مسلمان اللہ
پاک کے خوف سے روئے تو وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا، یہاں تک کے دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے۔ علامہ
ابو الحسن ابن بطّال رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:بندے کیلئے مستحب ہے کہ کچھ نہ کچھ وقت تنہائی میں گزارے، تاکہ گناہوں پر شرمندگی ہو، اخلاص کیساتھ ربّ
کریم کی بارگاہ میں گریہ و زاری کر سکے، اپنی بخشش کیلئے خوب گڑ گڑائے کہ
مُضطر کی دعا قبول ہوتی ہے۔منقول ہے:حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ پاک! جو تیرے خوف سے
روئے، یہاں تک کے آنسو اس کے چہرے پر بہہ
جائیں تو تُو اسے کیا اجر عطا فرمائے گا ؟ ارشاد ہوا:میں اس کے چہرے کو جہنم کی
لپٹ سے محفوظ رکھوں گا اور اسے گھبراہٹ
والے دن (یعنی قیامت ) سے امن عطا
فرماؤں گا۔( شرح بخاری لابن بطال، 8/424) حضرت یحییٰ علیہ
السلام نے اپنے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا:جنت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی
ہے، جسے وہی طے کر سکتا ہے، جو بہت رونے والا ہو۔( شعب الایمان، ، حدیث: 809)