خوف خدا کسے کہتے
ہیں:یاد رکھئے!مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کہ ناپسندیدہ اَمر کے پیش
آنے کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے
چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر، جبکہ
خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس
کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے،
ربّ کریم نے خود قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم
فرمایا ہے، جسے درج ذیل آیات میں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔ترجمۂ کنزالایمان:اور بے شک
تاکید فرما دی ہے ہم نے، ان سے جو تم سے
پہلے کتاب دئیے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ سے
ڈرو اور سیدھی بات کہو۔ترجمۂ کنزالایمان: تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ترجمۂ کنزالایمان:اے لوگو! اپنے ربّ سے
ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ سے
ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز
نہ مرنا، مگر مسلمان۔ترجمۂ کنزالایمان:اور مجھ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔ترجمۂ کنزالایمان: اور خاص
میرا ہی ڈر رکھو۔ترجمۂ کنزالایمان:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ترجمۂ
کنزالایمان:اور ڈرو اس دن سے جس میں اللہ کی طرف پھرو گے۔پیارے آقا محمد مجتبیٰ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے
والے ان کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیں، جن میں آپ نے صفتِ عظیمہ کو اپنانے کی تاکید
فرمائی ہے:1۔رسول اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے فرمایا:اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد خوف خدا زیادہ یاد رکھنا۔(احیاء العلوم،ج4، ص198)2۔نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:حکمت کی اصل اللہ
پاک کا خوف ہے۔)شعب الایمان،ج1، ص470، حدیث:(743 3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو نہایت اہم چیزوں کو نہ بھولنا، جنت اور دوزخ،یہ کہہ کر آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم رونے لگے،حتی کہ آنسوؤں سے آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔پھر فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،اگر تم وہ جان لو، جو میں جانتا ہوں تو جنگلوں میں نکل جاؤ اور اپنے سروں پر خاک ڈالنے لگو۔(مکاشفۃ القلوب ص316)قرآن عظیم اور احادیث کریمہ کے ساتھ ساتھ اکابر ینِ اسلام
کے اقوال میں بھی خوف خدا پاک کی نصیحتیں موجود ہیں چنانچہ1۔حضرت انس رضی
اللہُ عنہ نے اپنے بیٹے کو فرمایا:اے میرے بیٹے! تم سفلہ بننے سے
بچنا۔ اس نے عرض کی سفلہ کون ہے؟ فرمایا:وہ جو ربّ کریم سے نہیں ڈرتے۔(شعب الایمان، ج1،
ص 480، حدیث: 771)2۔حضرت عبداللہ بن مسعود کا وقتِ وفات جب قریب آیا،تو کسی نے عرض کی:مجھے کچھ وصیت ارشاد فرمائیے: میں تمہیں اللہ
پاک سے ڈرنے،اپنے گھر کو لازم پکڑنے،اپنی زبان کی حفاظت کرنے اور اپنی خطاؤں پر رونے کی وصیت کرتا ہوں۔)شعب الایمان، ج1،ص53،حدیث:(844۔ 3حضرت سلمان درانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس دل سے
خوف دور ہوجاتا ہے،وہ ویران ہوجاتا ہے۔(احیاء العلوم،،ج4،ص (199 ۔4۔حضرت ابوسلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوف خدا دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے۔(شعب الایمان،ج1،ص510،حدیث: 875)ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لیجئے کہ یہ ضروری
نہیں کہ ہر وقت دل پر خوف خدا کی کیفیت غالب رہے، کیونکہ دل کی کیفیات کسی نہ کسی
وجہ سے تبدل ہوتی رہے، اس پر کبھی ایک کیفیت غالب ہوتی ہے، تو کبھی دوسری۔