خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ ربّ کی بے نیازی،  اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، صفحہ 200)قرآن کریم میں کئی مقامات پر خوفِ خدا میں رونے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ربِّ کریم فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے ،اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن: 46)احادیث طیبہ بھی خوفِ خدا سے رونے کی فضیلت سے مالا مال ہیں، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ چلا جائے(اور یہ ناممکن ہے)اور اللہ پاک کی راہ میں پہنچنے والی گردوغبار اور دوزخ کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔(جامع ترمذی، جلد اول، حدیث:1701)

مجھ کو آقا عطا اپنا عشق اور خوفِ خدا کیجئے( وسائل بخشش)

ایک اور حدیث: میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نےنبی رحمت، شفیعِ اُمّت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی، (ایک) وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی، ( دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے کر گزاری۔(جامع ترمذی، 4/32، حدیث:1639)

تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھر تھر رہوں کانپتی یا الٰہی

حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ کا ارشاد ہے:جس شخص کی آنکھوں سے خوفِ خدا کے سبب آنسو جاری ہو جائیں اور اس کے قطرے زمین پر گریں تو جہنم کی آگ اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔(حلیۃ الاولیاء، جلد 5، صفحہ 401، رقم 7516)معلوم ہوا !اللہ پاک کے خوف سے رونا سعادت مندوں کا حصّہ ہے، الغرض خوفِ خدا کے سبب رونا انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرام علیہمُ الرضوان ، تابعینِ عظام، اولیائے کرام کا طریقہ ہے۔ہمیں بھی اللہ پاک وہ آنکھ عطا کرے، جو ہر گھڑی اس کے خوف میں روتی رہے، وہ دل عطا کرے، جو ہر لمحہ اس کے خوف سے روتا رہے۔آمین

میرے اَشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی( وسائل بخشش)