خوف خدا میں رونا ایک ایسی نعمت ہے،  اس کے سبب انسان گناہوں کی دَلدل سے محفوظ رہ سکتا ہے، جب ارتکابِ گناہ کی ساری رکاوٹیں دور ہو جائیں تو خوفِ خدا ہی انسان کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روک سکتا ہے، خوف ِخدا اور عشقِ مصطفی میں رونا ایک عظیم الشان نیکی ہے، اس کا جاہ و جلال دل و نظر میں سما جاتا ہے تو بندہ اس کے خوف سے لرزنے لگتا ہے، جو شخص اپنے ربّ سے جتنا ڈرتا ہے، اتنا ہی اسے زیادہ قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے، ربِّ کریم قرآن پاک میں خود ہی ارشاد فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27 ، رحمٰن: 46)اس آیت سے معلوم ہوا!اللہ پاک کا خوف بہت اعلی نعمت ہے، اللہ پاک سب مسلمانوں کو اپنا خوف نصیب کرے۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے زمانہ مبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیزگار اور عبادت گزار تھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہُ عنہ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے، وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعد اپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا، راستے میں خوبرو عورت اسے اپنی طرف بلاتی ، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دیئے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا، آخر ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا ، لیکن دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ پاک کا یہ فرمان عالیشان یاد آگیا:اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْن۔ ترجمہ:بے شک جب شیطان کی طرف سے پرہیز گاروں کو یہ خیال آتا ہے تو وہ فورا حکمِ خدا یاد کرتے ہیں، پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔اس آیت مبارکہ کی یاد آتے ہی اس کے دل پر خوفِ خد اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا، جب یہ بہت دیر تک گھر نہیں پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھا کر گھر لے آیا ، ہوش آنےپر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا، نوجوان پورا واقعہ بیان کیا کہ جب اس آیت مبارکہ کا ذکر کیا تو ایک مرتبہ پھر اس پر اللہ پاک کا شدید خوف غالب ہوا ، اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا، راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیا گیا، صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اس کے باپ کے پاس تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا :آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی؟(تاکہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے)۔اس نے عرض کی:امیر المؤمنین! اس کا انتقال رات میں ہوا تھا اور(آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانا مناسب معلوم نہ ہوا)، آپ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر پر لے چلو، وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27 ، رحمٰن: 46)تو قبر میں اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا:یا امیر المؤمنین! بے شک میرے ربّ نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔(ابن عساکر ،الخ 45/450، د،الہوئی، الباب الثانی والثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، صفحہ 190۔191) حدیث: پاک کی روشنی میں خوفِ خدا کے فضائل:بخاری شریف میں حضور اکرم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:اَنَا اَخْوَفْلُمْ لِلّٰہِیعنی میں تم سب سے زیادہ خوف خدا رکھتا ہوں۔(صحیح بخاری، جلد 2، کتاب الادب، صفحہ 901)تاجدار حرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے تو اللہ پاک کے خوف سے کانپتے تھے۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 233)نبی اکرم، تاجدارِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو جاری ہو جائیں، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہی ہوں تو چہرے کی گرمی کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ پاک اس کی وجہ سے اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 490، حدیث: 802)حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی۔(حلیۃالاولیاء ، 89، حدیث: 141)