آیت مبارکہ:لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(۵۰)ترجمہ کنز الایمان:اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے۔یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔

فرمانِ مصطفےٰ:بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو،بے شک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں۔(مسند امام احمد،6/134، حدیث:17378)

رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں کی تعداد:رسول اللہ ﷺ کی چار صاحبزادیاں ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

1)حضرت زینب رضی اللہ عنہا

2 )حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا

3 )حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا

4 )حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

حضرت زینب رضی اللہ عنہا:آپ رضی اللہ عنہا جو کہ آپ ﷺ کی بڑی صاحبزادی ہیں اعلان نبوت سے دس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں اور جنگِ بدر کےبعد حضور پُرنور ﷺ نے ان کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بلا لیا۔جب ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا اور ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا۔نبی کریم ﷺ کو اس واقع سے بہت صدمہ ہوا چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے فضائل میں یوں ارشاد فرمایا:یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے افضل ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔اس کے علاوہ آقا ﷺ نے ان کے انتقال کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ ( شرح زرقانی علی مواہب لدنیہ ، 4 / 318)

رسول اللہ ﷺ اپنی تمام شہزادیوں سے بے حد محبت فرماتے تھے۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا آقاﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھی جبکہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا:آقا ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ارشاد فرمایا:سیدۃ نساء العالمین یعنی تمام عورتوں کی سردار اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ یعنی اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔(مواہب لدنیۃ مع شرح زرقانی،4/335،336)اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں ارشاد نبوی ہے:فاطمہ میرے بدن کی ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(سیرت مصطفےٰ ،ص 698)

حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا جب محبوب رب العزت ﷺ کی خدمت سراپا شفقت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو جاتے پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ میں ان کا ہاتھ لے کر اسے بوسہ دیتے پھر ان کو اپنے بیٹھنے کے جگہ پر بٹھاتے۔اسی طرح جب آپ ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لاتے تو وہ دیکھ کر کھڑی ہو جاتیں آپ ﷺ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چومتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔(ابو داود ، 4 /454 ، حدیث:5218)

حدیثِ مبارک:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کی رسول اکرم ﷺ کا فرمانِ معظم ہے:جو بازار سے اپنے بچوں کیلیے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان پر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہیے کہ بیٹیوں سے ابتدا کرے کیونکہ اللہ پاک بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو اپنی بیٹیوں پر رحمت اور شفقت کرے وہ خوف خدا میں رونے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے اللہ پاک بروز قیامت اسے خوش کرے گا۔(مسند الفردوس ،2/263،حدیث:5830)

حدیثِ مبارک:فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے:جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک فرشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں:السلام علیکم اھل بیت یعنی اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔پھر فرشتے اس بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں:یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔جو اس کمزور جان کی پرورش کی ذمہ داری لے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔( مجمع الزوائد،8/285،حدیث:13484)

فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے:جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔( تر مذی،3/366، حدیث:1919)

آقا ﷺ کے فرمان بیٹیوں کے بارے میں کثیر ہیں۔جب آپ ﷺ بیٹیوں کی اتنی فضیلت بیان فرما رہے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آقا ﷺ خود اپنی صاحبزادیوں سے کتنا پیار کرتے ہوں گے جو کہ اپنی اولاد کے علاوہ اپنی امت سے بھی بے پناہ محبت و شفقت فرمانے والے ہیں۔