حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد احسان عطاریہ،جوہر آباد خوشاب
آیت مبارکہ:لِلّٰهِ
مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ
اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ
ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ
قَدِیْرٌ(۵۰)ترجمہ کنز الایمان:اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی
سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے۔یا
دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بے شک وہ علم و قدرت والا
ہے۔
فرمینِ مصطفےٰ ﷺ:
1)جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے ایذا نہ دے اور نہ ہی
برا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا۔(مستدرک ، 5 /
248 ، حدیث:7428)
2)جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس
کیلیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔عرض کی گئی اور دو ہوں تو ؟ فرمایا:اور دو ہوں تب بھی۔عرض
کی گئی:اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا:اگر ایک ہو تب بھی۔(معجم اوسط، 4 /347 ،حدیث:6199)
3)جس کی تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا
سلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔( ترمذی ، 3 / 366 ، حدیث:1919)
آقا ﷺ کی چار شہزادیاں تھیں:
1)حضرت زینب رضی اللہ عنہا
2 )حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
3 )حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا
4 )حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا
حضرت زینب رضی اللہ عنہا:آپ آقا ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو
کہ اعلان نبوت سے دسویں سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں ، جنگِ بدر کی بعد حضور ﷺ نے ان کو مکہ سے مدینہ بلا لیا۔جب یہ
ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا۔ایک ظالم
ہبار بن اسود نے ان کو نیزہ مار کر زمین پر گرا دیا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط
ہو گیا (یعنی بچہ اسی وقت پیٹ میں ہے فوت ہو گیا۔) نبی کریم ﷺ کو اس واقعے سے بہت صدمہ ہوا۔چنانچہ
آپ ﷺ نے فرمایا:یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے سب سے افضل ہے کہ میری طرف ہجرت
کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔جب 8 ہجری میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال
ہو گیا تو سلطانِ مدینہ ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں
قبر میں اتارا۔( شرح زرقانی علی مواہب لدنیہ ، 4 / 318)
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا:اعلانِ نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور ﷺ کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا پیدا
ہوئیں اور ابتدائے اسلام میں ہی مشرف بہ
اسلام ہو گئیں۔پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا لیکن ابھی ان کی
رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ سورۂ لہب نازل ہوگئی، ابولہب قرآن میں اپنی رسوائی کا بیان
سن کر آگ بگولا ہو گیا اور اپنے بیٹے عتبہ کو مجبور کر دیا کہ وہ حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا کو طلاق دے دے۔اس کے بعد حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آقا ﷺ نے حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔نکاح کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہ
رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی،پھر حبشہ سے مکہ واپس آکر مدینہ
کی طرف ہجرت کی اور میاں بیوی دونوں صاحب الہجرتین کے معزز لقب سے سرفراز ہو گئے۔جنگِ بدر کے دن حضرت رقیہ
رضی اللہ عنہا سخت بیمار تھیں تو آقا ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی تیمارداری
کیلیے جنگِ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا اسی روز حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال
ہوا۔آپ رضی اللہ عنہا کی عمر 20 سال تھی۔(شرح زرقانی،3/ 198،199)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا:آپ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ان کا نام فاطمہ
اور لقب زہرا اور بتول ہے۔ان کی پیدائش میں اختلاف ہے۔چنانچہ ابن عمر کا قول ہے کہ
اعلان نبوت کے پہلے سال جب حضور ﷺ کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی یہ پیدا ہوئیں۔
فضائل و مناقب:ان کے فضائل و مناقب اور آقا ﷺ کی ان سے محبت کے کیا کہنے!حضور ﷺ کا ارشاد سیدۃ
النساء العالمین اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ (اہل جنت کی عورتوں کی سردار)کے حق میں
ارشاد نبوی ہے کہ فاطمہ میرے بدن کی ایک بوٹی ہے۔جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے
مجھے ناراض کیا۔(مشکاۃ المصابیح،ص 568 )(شرح زرقانی ، 3/ 204)