حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ فلک شیر،شاھدرہ بہاولپور
محبت ایک ایسا نورانی جذبہ ہے جو انسان کی شخصیت کو روشن
کرتا ہے اور تعلقات میں خوشبو بکھیرتا ہے۔یہ وہ عطیہ ہے جو انسان کو اللہ پاک نے
فطرتاً عطا کیا ہے اور جب اس محبت کو نبی اکرم ﷺ کے مبارک کردار میں دیکھا جائے تو
یہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی محبت ہر رشتے میں مثالی ہے،چاہے وہ
ازواجِ مطہرات ہوں یا شہزادیاں،صحابہ کرام ہوں یا اہلِ بیت۔لیکن خاص طور پر آپ ﷺ کی
اپنی چار شہزادیوں کے ساتھ محبت ایک ایسا باب ہے جو والدین کے لیے رہنمائی کا
سرچشمہ ہے۔
آج کے دور میں جہاں والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے بڑھ
رہے ہیں اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے، وہیں رسول اللہ ﷺ کا اپنی بیٹیوں سے
محبت اور ان کی عزت کا برتاؤ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی شہزادیوں کو نہ
صرف والدین کی محبت کا اعلیٰ نمونہ عطا کیا بلکہ انہیں وہ مرتبہ بھی عطا کیا جو
رہتی دنیا تک قابلِ رشک رہے گا۔نبی اکرم ﷺ کی اپنی بیٹیوں سے محبت صرف ایک جذباتی
وابستگی نہیں تھی بلکہ ایک عملی درس تھا جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ
ہے۔
آپ ﷺ کی چار شہزادیاں،حضرت زینب،حضرت رقیہ،حضرت ام کلثوم
اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن نہ صرف آپ
کے دل کا سکون تھیں بلکہ امت کے لیے ایک مثال بھی تھیں۔ان کے ساتھ آپ کی محبت اور
شفقت میں والدین کے لیے یہ درس ہے کہ بیٹیاں نہ صرف عزت و وقار کی علامت ہیں بلکہ
خاندان کا فخر اور رحمت بھی ہیں۔قرآن و حدیث میں اس طرح کے کئی واقعات ملتے ہیں جو
اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ بیٹیوں سے محبت کیسے کی جاتی ہے اور ان کو کیسے عزت دی
جاتی ہے۔
1)حضرت زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی
تھیں۔ان کے متعلق احادیث براہِ راست کم ہیں لیکن واقعات آپ ﷺ کی ان سے محبت کو
ظاہر کرتے ہیں۔جیسا کہ
غزوۂ بدر کے بعد جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر
ابو العاص کو رہائی دلوانے کے لیے اپنی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار فدیے
کے طور پر بھیجا تو رسول اللہ ﷺ اس ہار کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور صحابہ کرام سے
فرمایا:اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کا ہار واپس کر دو اور ان کے شوہر کو رہا کر دو
تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے بخوشی قبول کیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ
نے ابوالعاص سے یہ عہد لیا کہ زینب رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺ کی طرف بھیج دیں گے۔پھر
رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا اور انہیں کہا:تم وادیِ
یاجج کے دامن میں رکنا یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس آ جائے تو پھر اسے ساتھ لے کر آ
جانا۔( ابوداود،3/83،حدیث:2692)
2)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا آقا ﷺ کی دوسری شہزادی ہیں۔آپ کا
نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا۔آقا ﷺ کی ان سے محبت کے متعلق بھی کئی
روایات ملتی ہیں۔جیسا کہ
غزوۂ بدر کے وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں اور
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو غزوہ میں شریک ہونے کے بجائے حضرت رقیہ
رضی اللہ عنہا کی تیمارداری کی اجازت دی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:عثمان کو بدر میں شریک ہونے والے آدمی جتنا
اجر ملے گا اور مالِ غنیمت میں سے حصہ بھی۔(ترمذی ،5/394 ،حدیث:3726)
3)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا بھی نکاح حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ ان سے بھی بے حد محبت فرماتے تھے۔حضرت ام
کلثوم رضی اللہ عنہا کے انتقال پر رسول اللہ ﷺ کو بہت دکھ ہوا۔آپ نے ان کی نماز
جنازہ خود پڑھائی اور ان کے لیے دعا فرمائی۔
4)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی
تھیں اور آپ کو ان سے بے حد محبت تھی۔ان کے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں ،جیسا کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے
مجھے ناراض کیا۔(مشکاۃ المصابیح،2/436،حدیث:6139) (مسلم، ص1021 ، حدیث:6307)
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب خاتُونِ جنَّت حضرت فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا حُضُور ﷺ کی خِدْمَت میں حاضِر ہوتیں تو آپ ان کیلئے کھڑے ہوجاتے اور ان کا ہاتھ پکڑتے اس پربوسہ دیتے
اور اپنی جگہ ان کو بٹھاتے۔اسی طرح جب حُضُور ﷺ حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو آپ بھی
کھڑی ہوجاتیں اور ہاتھ مُبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ حُضُور ﷺ کو بٹھا لیتیں۔(مشکاۃ
المصابیح، 2/171، حدیث:4689)