آج کل بچے والدین کی خدمت کرنے کو خود پر بوجھ سمجھتے ہیں ان کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے

ناک خاک آلود ہو پھر فرمایا ناک خاک آلود ہو پھر تیسری مرتبہ فرمایا ناک خاک آلود ہو اس شخص کی جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین میں سے ایک کو یا دونوں کو پایا اور پھر ان (دونوں کی یا ان میں سے کسی ایک) کی خدمت کر کے جنت میں نہیں گیا. (حوالہ:-صحیح مسلم، کتاب البر وصلہ، باب رغم انف من ادراک اباویه او احدھا )

مختصر وضاحت: ناک خاک آلود ہونا یہ کنایہ ہے ذلت سے گویا اس کی ناک مٹی میں مل گئی اس میں ایسے بدنصیب کے لیے بد دعا ہے یا اس انجامِ بد کی اس کو خبر دی گئی ہے جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرکے اور ان کی خدمت کر کے اپنے رب کو راضی نہیں کر پاتا والدین کی خدمت تو ہر عمر میں ہی ضروری ہوتی ہے وہ جوان ہو تب بھی وہ برے ہوں تب بھی لیکن حدیث میں بڑھاپے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ بڑھاپے میں والدین کو زیادہ خدمت کی ضرورت ہوتی ہے احتیاج اور ضعف کے اس دور میں انہیں حالات کے رحم اور کرم پر چھوڑ دینا سنگ دلانا جرم اور چند در چند قبیح فعل ہے اور وہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے جنت سے محروم رہ سکتا ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے سچے دل سے اور جو ان سے بڑھاپے میں جا کر تنگ آجاتے ہیں اللہ تبارک و تعالی ان کو ہدایت عطا فرمائے آمین

اللہ رب العزت کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور پھر اپنے پیارے محبوب امام الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت سے پیدا فرمایا اور کرم بالائے کرم یہ ہے کہ مسلک حق اہل سنت و جماعت سے منسلک کیا مجھ ناچیز کو اور میرے اساتذہ کرام کا شکریہ جنہوں نے میری تربیت فرمائی اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول و منظور فرمائے اور اس کو امت حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے نافع اور میرے لیے شافع بنائے امین بجاہ نبی الکریم