رسول پاک صاحب لولاک سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نےکئی مواقوں،کئی چیزوں پر اپنے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تربیت فرمائی ھے :مثلاً،کبھی کسی قول کے ذریعے،کبھی کسی فعل کے ذریعے،کبھی تو ایسا بھی ھوا کہ،نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کام کو خود کر کے اپنے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تربیت فرمائی۔بہرحال میں آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 3 چیزیں بیان فرما کےسب مسلمانوں کی تربیت فرمائی

مسند امام احمد جلد 7 - باب: حضرت ابوکبشہ انماری (رضی اللہ عنہ) کی حدیثیں، حدیث نمبر: 1133:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ عَنْ سَعِيدٍ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيِّ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ الْأَنْمَارِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثَلَاثٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ قَالَ فَأَمَّا الثَّلَاثُ الَّذِي أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ فَإِنَّهُ مَا نَقَّصَ مَالَ عَبْدٍ صَدَقَةٌ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ بِمَظْلَمَةٍ فَيَصْبِرُ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا عِزًّا وَلَا يَفْتَحُ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ لَهُ بَابَ فَقْرٍ وَأَمَّا الَّذِي أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ فَإِنَّهُ قَالَ إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ عَبْدٌ رَزَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ حَقَّهُ قَالَ فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ قَالَ وَعَبْدٌ رَزَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا قَالَ فَهُوَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِي مَالٌ عَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ قَالَ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ قَالَ وَعَبْدٌ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقَّهُ فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ قَالَ وَعَبْدٌ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِي مَالٌ لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ قَالَ هِيَ نِيَّتُهُ فَوِزْرُهُمَا فِيهِ سَوَاءٌ

حضرت ابو کبشہ انماری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین چیزیں ہیں جن پر میں قسم کھا سکتا ہوں اور ایک حدیث ہے جو میں تم سے بیان کرتا ہوں، سو اسے یاد رکھو، وہ تین چیزیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں وہ یہ ہیں کہ صدقہ کی وجہ سے کسی انسان کا مال کم نہیں ہوتا جس شخص پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں مزید اضافہ کر دے گا اور جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ کھولتا ہے اللہ اس پر فقروفاقہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور وہ حدیث جو میں تم سے بیان کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دنیا چار قسم کے آدمیوں کی ہے، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال اور علم سے نوازا ہو، وہ اپنے علم پر عمل کرتا ہو اورمال كو اس کے حقوق میں خرچ کرتا ہو، اس کا درجہ سب سے اونچا ہے، دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے علم عطا فرمایا ہو لیکن مال نہ دیا ہو اور وہ کہتا ہو کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اس شخص کی طرح اپنے علم پر عمل کرتا، یہ دونوں اجروثواب میں برابر ہیں۔ تیسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال سے تو نوازا ہو لیکن علم نہ دیا ہو، وہ بدحواسی میں اسے ناحق مقام پر خرچ کرتا رہےنہ اپنے رب سے ڈرے، نہ صلہ رحمی کرے اور نہ اللہ کا حق پہچانے اس کا درجہ سب سے بدترین ہے اور چوتھا وہ آدمی جسے اللہ نے نہ مال سے نوازا ہو اور نہ ہی علم سے اور وہ یہ کہتا ہو کہ گر میرے پاس بھی اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی اسے اس شخص کی طرح کے کاموں میں خرچ کرتا، یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔( مسند امام احمد ،باب :حضرت ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ کی حدیثیں ،حدیث نمبر :1133،صفحہ نمبر 3)

مذکورہ حدیث پاک کا سبب بیان کرتے ہوے 'حافظ الحدیث امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اپنی کتاب (اسباب ورود الحدیث یا اللمع فی اسباب الحدیث ،متوفی911ھ)میں فرماتےہیں۔آپ نے مسند امام احمد سےنقل کیا ھے۔کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو گالی دی معاذاللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(بھی وہیں)تشریف فرما تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعجب سے مسکراتے رہے۔جب اس نے زیادہ گالیاں معاذاللہ دینا شروع کر دیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناگوار گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر چلے گئے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے۔عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف فرما رہے جب میں نےاس کو جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور وہاں سے کھڑے ہو گئے ۔(اس میں کیا حکمت تھی؟)ارشاد فرمایاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:اےابو بکر!تیرے ساتھ ایک فرشتہ تھا ۔جوتیری طرف سے جواب دے رہا تھا ۔جب تو نے جواب دینا چاہا تو شیطان (درمیان میں) آ گیا۔میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیطان کے ہوتے ہوئے بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔پھر ارشاد فرمایا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اے ابو بکر ! 3 چیزیں حق ہیں ۔

1۔ بندے پر جب ظلم ہو اور وہ اللہ پاک کی رضا کے لئےصبر کر کے خاموش رہےتو اللہ پاک مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو عزت عطا کرتا ہے۔

2۔ اور جب بندہ مال اس لیے کماتا ہےکہ صلہ رحمی کرے گا تو اللہ پاک اس کے مال میں اضافہ فرماتا ہے۔

3۔ جب بندہ سوال اس لیے کرتا ہےکہ اس کا حال بڑھے تو اللہ پاک اس کے مال میں کمی کرنے میں اضافہ فرماتا ہے۔( مسندامام احمد (مطبوعہ، ،جلد 7صفحہ نمبر436، مع اسباب الحدیث (مکتبہ اعلی حضرت))

حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی شاھد محمود مدنی مدظلہ العالی نےمذکورہ کتاب امام جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی شرح بیان کی ہےآپ مذکورہ حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حدیث پاک میں سوال کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہےاور سوال کرنے کے متعلق بیان فرماتے ہیں : کسی سے سوال کرنے کی چار قسمیں بنتی ہیں: حاشیہ بخاری شریف جلد 1 صفحہ نمبر 199، پر درج ذیل ہیں۔

1۔حرام: سوال کرنا اس بندے کے لیے حرام ہےجس کے پاس اتنا مال ہو کہ غنی ہو۔

2۔مکروہ: اس شخص کے لیے سوال کرنا مکروہ ہےجس کے پاس گزر بسر کے لیے مال ہو۔

3۔مباح:اس شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہےجو مال نہ رکھتا ہو اور حاجت کے لیے مانگے۔

4۔واجب:جس کے پاس کھانے پینے کو کوئی چیز نہ ہو یا کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو کہ مال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہو جائےتو جان بچانے کے لئے اسے سوال کرنا واجب ہے۔( حاشیہ بخاری جلد 1صفحہ 199 ،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

اور اسی طرح صبر کرنے پر بھی بشارت سنائی گئی اورصبر کرنے کے بہت ہی فوائد ہیں اور صبر کرنے پر بے حساب اجر ملتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ پاک اپنے پیارے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (پارہ 23 سورۃ الزمر آیت نمبر 10) ترجمۂ کنز الایمان :صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی۔

اللہ پاک ہم سب کومذکورہ حدیث پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم