سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت ارشد، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
سود کی تعریف: ربا یعنی سود
حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق
مردود الشہادہ ہے، عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ
اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔
آیت مبارکہ: اللہ پاک فرماتا
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا
اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا
فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن
ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے لڑائی کا اعلان
ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو
اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔
احادیث مبارکہ:
1۔رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:
1097)
2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب معراج میرا گزر ایک قوم
پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے
دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا: اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود
خوار ہیں۔(سنن ابن ماجہ، 3/72، حدیث: 2273)
3۔ سود (کا گناہ) 70 حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں
سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ، 8/223، حدیث: 2274)
4۔سونا بدلے سونے کے اور چاندی بدلے چاندی کے، گیہوں بدلے گیہوں کے اور جو
بدلے جو کے اور کھجور بدلے کھجور کے، نمک بدلے نمک کے برابر برابر دست بدست بیع
کرو اور جب اصناف میں اختلاف ہو تو جیسے چاہو بیچو (یعنی کمی و بیشی کا) اختیار ہے
جبکہ دست بدست ہوں، اوراسی کی مثل ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی، اس میں
اتنا زیادہ ہے کہ جس نے زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا، لینے والا اور دینے
والا دونوں برابر ہیں اور صحیحین میں حضرت
عمر سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔(مسلم، ص 856، حدیث: 1587)
5۔سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(ابن ماجہ، 2/73،
حدیث: 2276)