قرآن مجید کی سورۃالحدید کی آیت نمبر 7 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ترجمہ کنزالایمان : اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا اُن کے لئے بڑا ثواب ہے ۔

اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔} اللہ پاک کی وحدانیَّت پر دلالت کرنے والی مختلف چیزیں بیان کرنے کے بعد اب بندوں کو ایمان قبول کرنے،محبت ِدنیا کو چھوڑ دینے اور نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ پاک کی وحدانیَّت کا اقرار کر کے اور جن چیزوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اُن میں اِن کی تصدیق کر کے اللہ پاک اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو اور جو مال اس وقت تمہارے قبضے میں ہے، تم وراثت کے طور پر اس میں دوسروں کے جانشین بنے ہو اور عنقریب یہ تمہارے بعد والوں کی طرف منتقل ہو جائے گا لہٰذا تم پہلے لوگوں سے نصیحت حاصل کرو اور اس مال کو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل نہ کرو، اور تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنا مال اسی طرح خرچ کیا جیسے انہیں حکم دیا گیا تھا تو ا س بنا پر ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ پاک اورا س کے رسول پر ایمان لاؤ اور جو مال تمہارے قبضے میں ہے یہ سب اللہ پاک کے ہیں ،اس نے تمہیں نفع اُٹھانے کے لئے دے دیئے ہیں ،تم حقیقی طور پر ان کے مالک نہیں بلکہ نائب اور وکیل کی طرح ہو،ا نہیں راہِ خدا میں خرچ کرو اور جس طرح نائب اور وکیل کو مالک کے حکم سے خرچ کرنے میں کوئی تأمُّل نہیں ہوتا توتمہیں بھی کوئی تأمُّل و تَرَدُّدْ نہ ہو۔اور تم میں سے جو لوگ اللہ پاک اور ا س کے رسول پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کیا ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

( صاوی ، الحدید ، تحت الآیۃ : 7، 6 / 2102-2103، تفسیر طبری، الحدید، تحت الآیۃ: 7، 11 / 671-672، روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: 7، 9 / 353-354، ملتقطاً)

زندہ اور مردہ کو ایصالِ ثواب کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے، میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے،لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لئے وقت اور زمانہ متعین ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے، اس کے لئے کسی خاص مہینے یا کسی خاص دن کی تعیین کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔

ایصال ثواب کی محافل میں قرآن پڑھا جاتا ہے یہ قرآن پڑھنا تو اشرف المخلوقات کا عمل ہے انسان قرآن پرھتاہے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض گزار ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت میں اس کا ثواب حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچاتا ہوں میں اس کا ثواب حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچاتا ہوں یہ تو پھر اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی زبان سے افضل قرآن پڑھ رہا ہے دوسری طرف یہ دیکھیں کہ اسلام نے تو یہاں تک اس ایصال ثواب کے مسئلہ کو واضح کیا کے درختوں کی تسبیح سے بھی عذاب دور ہو جاتا ہے قبر کے مکینوں کو ان کی تسبیح سے بھی سکون ملتا ہے تو پھر قرآن مجید کی تلاوت کرنے تسبیحات پڑھنے آیت کریمہ پڑھنے کلمہ شریف پڑھنے سے جو ثواب حاصل ہوتا ہے وہ فوت شدہ گان کے لئے تسکین اور عذاب سے نجات کا باعث کیوں نہ ہوگاپھر دیکھئے بخاری و مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث شریف ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوچکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرماتے۔

سیدنا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح کر رہے ہیں اور گوشت تقسیم کر رہے ہیں ان کی سہیلیوں کو بھیج دیتے ہیں مجھے بتائیں جب یہ گوشت تقسیم ہو رہا تھا اور کسی نے پوچھا یہ کیسا گوشت ہے؟تو جواب یہی دیا جاتا تھا یہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے لئے ذبح کیا گیا ہے اس کا اور کوئی نام نہیں ہے یہ بکری یہ گوشت کسی کے نکاح یا ولیمہ کے لئے ذبح نہیں کی گئی یہ بکری کسی دوست یا مہمان کی ضیافت کے لئے زبح نہیں کی گئی بلکہ یہ بکری سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے لئے ذبح کی گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بکری ذبح فرمائی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے تعلق کی نسبت سے ان کی سہیلیوں کو کوشت بھیجا یہ سارے کا سارا عمل ثابت کر رہا ہے کہ دنیا سے جو چلے گئے ہیں ان کے ثواب کے لئے یہ کام ہو سکتا ہے۔

حضرت سعد بن رضی اللہ عنہ کی والدہ فوت ہو گئی حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری والدہ محترمہ ام سعد رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ہے ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے کہ میں صدقہ کروں تو فائدہ میری والدہ کو پہنچے ؟(یہاں بھی وہی قانون ثابت ہے کہ صدقہ کرنا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا فعل ہے لیکن اس سے فائدہ ان کی والدہ محترمہ کو بھی ہو جائے گا ۔)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :پانی کا صدقہ بڑا اچھا ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہاکہ یہ کنواں ام سعد رضی اللہ عنہا کا کنواں ہے۔

غور فرمائیں اگر غیر کی طرف نیاز منسوب کرنے سے وہ حرام ہو جاتی ہے جیسے ان کے نظریے کے مطابق غیر کا نام لینے سے گیارہویں کی کھیر حرام ہو جاتی ہے گیارہویں کا لنگر حرام ہو جاتا ہے تو یہ غیر کا نام اس کنویں پر بھی لیا گیا اور نسائی شریف (جلد2، 132) میں ہے۔

حضرت سیِّدُناعُقْبَہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نےبارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : کیا میں اپنی وفات یافتہ ماں کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟تومکی مدنی مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا اور وہ تم ادا کرتیں تو کیا تم سے قبول کر لیاجاتا؟اس نے عرض کی : کیوں نہیں۔ پھرآپ نے اسے حج کرنے کا حکم دیا۔

اللہ پاک ہمیں ایصال ثواب کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم