آج ہم انشاءاللہ چغلی کرنے کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے سب سے پہلے ہم چغلی کی تعریف پڑتے ہے کہ چغلی ہے کیا؟

چغلی کسے کہتے ہیں؟ امام نوَ وِی رَحْمَةُ الله علیہ سے منقول ہے : کسی کی بات نقصان پہنچانے کے ارادے سے دوسروں کوپہنچانا چغلی ہے۔ (عمدۃ القاری، تحت الحدیث 594/2،216)

چغلی کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔ (الزواجر عن اقتراف الكبائر، الباب الثاني، الكبيرة الثانية والخمسون بعد المأتين: النميمة، 46/2)

اب اگر ہم اس تعریف پہ غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز ہمارے اندر کتنی زیادہ پائی جاتی ہے اور کیا یہی چیز ہم اپنے معاشرے میں نہیں دیکھتے؟ یقینا ہم دیکھتے ہے اور ہمیں پتہ بھی ہے لیکن اس برائی سے بچا کیسے جائے ؟ تو اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے عذاب پہ نظر کی جائے کیونکہ جس چیز کا انجام برا ہوں اس سے انسان بچتا ہے تو ہم دیکھتے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کیا ارشاد فرمایا؟

حدیث مبارکہ میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح کاٹ دیتی ہیں جیسے چرواہا درخت کو کاٹ دیتا ہے۔ (الترغيب والترهيب، كتاب الادب، رقم: 4362، ج 3، ص 405)

اب میرے محترم اسلامی بھائیوں! غور کریں کہ اس مثال سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے یقنا چرواہا جو ہوتا ہے یہ کوشش کرتا ہے کہ درخت جلدی کٹ جائے لیکن اگر یہ روزانہ کلھاڑے کی ایک ہی ضرب درخت کو لگائے تو ایک نہ ایک دن درخت کٹ جائے گا ایسے ہی اگر ہم چغلی کرتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ بس ایک شخص کی یا دو کی ہی تو کی ہے لیکن کہیں یہ ایک،دو ہی ہمارا ایمان نہ برباد کر دیں۔ ہمیں ہر لحاظ سے اس سے بچنا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ وہ ہے جو ادھر اُدھر کی باتوں میں لگائی بجھائی کر کے مسلمانوں میں اختلاف اور پھوٹ ڈالتا ہے۔ (مسند امام احمد، حديث عبد الرحمن بن عثم، رقم: 291/18020،6)

تو میرے محترم اسلامی بھائیوں! اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ چغلی کرنے والا بھی اللہ پاک کا ناپسندیدہ بندہ ہے اور جو اللہ پاک کا ناپسندیدہ ہو وہ جنت میں کیسے داخل ہو گا ؟ اور اللہ پاک کے پسندیدہ بندوں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اللہ پاک کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ پاک یاد آجائے اور اللہ پاک کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے اِدھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں۔ (مسند امام احمد، مسندالشاميين، حديث عبد الرحمن بن غنم الاشعرى، 291،6 ، حدیث : 18020)

اسی طرح ایک اور مقام پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چغل خور کو آخرت سے پہلے اس کی قبر میں عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب الوضو باب من الكبائر ... الخ، حدیث: 95/1،216)

تو میرے محترم اسلامی بھائیوں اس حدیث پاک سے ہمیں پتہ چلا کہ چغلی کرنے والوں کے عذاب کا سلسلہ قبر سے ہی شروع ہو جائے گا اور یہ بشارت بھی وہ فرما رہے ہے جو تمام نبیوں کے سردار دو جہاں کے مالک مختار جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے آپ کی زبان مبارکہ سے کبھی کافروں نے جھوٹ نہیں سنا تھا تو ہم یہ کیسے گمان کر لیں کہ اس میں ہمارے لئے کمی ہو گی یقینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے تو یہ ہو کر ہی رہے گا اور چغلی کرنے والے کو سزا مل کر ہی رہے گئ اگر ہم چاہتے ہے کہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے تو ضروری ہے کہ ہم دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ چغلی سے بھی بچتے رہے جو ہماری زبانوں اور معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم شفیع روز شمار ، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ عَلَيْهِ والہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، ہمارا گزر دو (2) قبروں کے پاس سے ہوا، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ اللَّهِ وَ سَلَّمَ ٹھہر گئے، لہذا ہم بھی آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ ٹھہر گئے ، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کا رنگ مبارک تبدیل ہونے لگا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی قمیص مبارک کی آستین کپکپانے لگی، ہم نے عرض کی: یارسول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! کیا معاملہ ہے ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاللَّهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کیا تم بھی وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں؟ ہم نے عرض کی : یا رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! آپ کیا سن رہے ہیں ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان دونوں افراد پر ان کی قبروں میں انتہائی سخت عذاب ہو رہا ہے وہ بھی ایسے گناہ کی وجہ سے جو حقیر ہے ( یعنی ان دونوں کے خیال میں معمولی تھا یا پھر یہ کہ اس سے بچنا ان کے لئے آسان تھا) ہم نے عرض کی : وہ کون سا گناہ ہے؟ تو آپ صلى الله عَلَيْهِ والله وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان میں سے ایک پیشاب سے نہ بچتا تھا اور دوسرا اپنی زبان سے لوگوں کو اذیت دیتا اور چغلی کرتا تھا۔ پھر آپ صلى الله عَلَيْهِ والہ وسلم نے کھجور کی دو (2) ٹہنیاں منگوائیں اور ان میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹہنی رکھ دی، ہم نے عرض کی: یارسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاللَّهِ وَسَلَّمَ ! کیا یہ چیز ان کو کوئی فائدہ دے گی؟ آپ صلى اللہ عَلَيْهِ وَالہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں ! جب تک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں گی ان سے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔ (صحیح ابن حبان كتاب الرقائق، باب الاذكار، حدیث: 96/2،821 " لا يستنزه" بدله "لا يستتر")

اب دیکھے میرے محترم اسلامی بھائیوں! چغلی کرنا کیسا برا کام ہے کہ جو شخص چغلی کرتا تھا اس کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا اور وہ عذاب کتنا سخت ہو گا جس کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قمیض مبارک بھی کپکپانے لگا یقنا ہم اس عذاب کو برداشت نہیں کر سکے گے اور ایک لمحہ بھی نہیں برداشت کر سکے گئے تو ہمیں چاہے کہ ہم ان کاموں سے محفوظ رہے

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: : لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَاتُ یعنی چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔(بخاری ، کتاب الادب، باب ما يكره من النميمة ، الحديث 6052 ، ص 512)

اب جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ یہ جنت میں نہیں جائے گا تو پھر اس کا ٹھکانہ جہنم کے علاوہ اور کونسی جگہ ہو سکتی ہے یقنا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے ہی جنت میں جائے گے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اس وقت ہی ملے گئ جب ہم ان کے فرامین پہ عمل کریں گے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو چغلی کرنے اور چغلی کرنے والے کی صحبت سے محفوظ رکھے۔(آمین)