چغل خوری کرنا
کتنا برا کام ہے ، میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! احادیث رسول میں چغل خوروں کی مذمت
بیان ہوئی ہے۔ آئیے ! عبرت کے لئے 6 فرامین مصطفٰے صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسَلَّمَ ملاحظہ کیجئے : چغلی کے متعلق 6 فرامین مصطفى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَآلِهِ وَسَلَّمَ
(1) ارشاد
فرمایا: غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح کاٹ دیتی ہیں جیسے چرواہا درخت کو کاٹ دیتا
ہے۔ ( الترغيب والترهيب ، كتاب الادب، رقم:43ء2، ج 3، ص 405)چغلی کا عذاب و چغل
خور کی مذمت۔
(2) ارشاد
فرمایا: تم لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ وہ ہے جو ادھر اُدھر کی
باتوں میں لگائی بجھائی کر کے مسلمان بھائیوں میں اختلاف اور پھوٹ ڈالتا ہے۔ (مسند
امام احمد حدیث عبد الرحمن بن عثم، رقم: 18020/291)
(3) ارشاد
فرمایا: اللہ پاک کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ پاک یا د
آجائے اور اللہ پاک کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے ادھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں
کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں۔ (مسند
امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عبد الرحمن بن غنم الاشعری، 291 ، حدیث : 18020)
(4) ارشاد
فرمایا: منہ پر برا بھلا کہنے والوں، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں، چغلی کھانے والوں
اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن ) کتوں کی شکل
میں جمع فرمائے گا ۔ ( التوبيخ والتنبيه لابي الشيخ الاصبهاني، باب البهتان وماجاء
فيه، ص 237، حدیث: 214)
(5) ارشاد
فرمایا: چغل خور کو آخرت سے پہلے اس کی قبر میں عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب
الوضوء باب من الكبائر ... الخ ، حدیث : 214، 1/95)
(6) ارشاد
فرمایا: لايَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَات یعنی چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (بخاری،
کتاب الادب، باب ما يكره من النميمة، الحدیث 4054 ، ص 512)چغلی کے سبب عذاب قبر۔
حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم شفیع روز شمار ، دوعا اسے مروی ہے کہ ہم
شفیع روز شمار ، دو عالم کے مالک و مختار صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کے
ساتھ چل رہے تھے ، ہمارا گزر دو (2) قبروں کے پاس سے ہوا، آپ صلی اللهُ عَلَيْهِ
وَالِهِ وَسَلَّمَ ٹھہر گئے، لہٰذا ہم بھی آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسَلم کے ساتھ ٹھہر گئے ، آپ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کارنگ
مبارک تبدیل ہونے لگا یہاں تک کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کی
قمیص مبارک کی آستین کپکپانے لگی، ہم نے عرض کی: یار سول الله صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! کیا معاملہ ہے ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِہ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : کیا تم بھی وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں ؟ ہم
نے عرض کی : یا رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! آپ کیا سن
رہے ہیں ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان دونوں افراد پر
ان کی قبروں میں انتہائی سخت عذاب ہو رہا ہے وہ بھی ایسے گناہ کی وجہ سے جو حقیر
ہے ( یعنی ان دونوں کے خیال میں معمولی تھا یا پھر یہ کہ اس سے بچنا ان کے لئے
آسان تھا ہم نے عرض کی : وہ کون سا گناہ ہے ؟ تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان میں سے ایک پیشاب سے نہ بچتا تھا اور دوسرا اپنی
زبان سے لوگوں کو اذیت دیتا اور چغلی کرتا تھا۔ پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَالِہ وَسَلَّمَنے کھجور کی دو (2) ٹہنیاں منگوائیں اور ان میں سے ہر ایک قبر پر
ایک ایک ٹہنی رکھ دی، ہم نے عرض کی : یا رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ
وسلم ! کیا یہ چیز ان کو کوئی فائدہ دے گی ؟ آپ صلی الله عليه واله وسلئے ارشاد
فرمایا: ہاں ! جب تک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں گی ان سے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔
(صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق ، باب الاذكار ، حدیث :127، 6/19، "لايستنزه
"بدله "لايستتر")