کسی کی بات سن کر دوسرے سے اس طور پر کہہ دینا کہ دونوں میں اختلاف اور جھگڑا ہو جائے ایسا کرنا چغلی کہلاتا ہے۔

_ آج ہمارے معاشرے میں یہ مرض تیزی کے ساتھ عام ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے کے لوگوں میں احترام مسلم کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کرتا تھا۔

اب ہرطرف نفرتوں کی دیواریں قائم ہو چکی ہیں۔ چغلی کی اس تباہ کن بیماری کے سبب اب گھر گھر میدانِ جنگ بنا ہوا ہے، چنانچہ کل تک جو ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے، جو ایک دوسرے کی عزت کی حفاظت کرنے والے تھے، جن کی دوستی اور ان کے اتفاق و اتحاد کی مثالیں دی جاتی تھیں، جنہیں ایک دوسرے کے خلاف ایک لفظ سُننا بھی گوارا نہ تھا، جو ایک دوسرے کے بغیر کھانا تک نہیں کھاتے تھے، جو بُرے وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے ، جو ایک دوسرے کو نیکی کے کاموں کی ترغیبیں دلایا کرتے تھے، چغل خوری جیسے منحوس شیطانی کام کی نحوست کے سبب ان کے درمیان نفرتوں کی ایسی مضبوط دیواریں قائم ہو جاتی ہیں کہ پھر وہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم شفیع روز شمار ، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کے ساتھ چل رہے تھے ، ہمارا گزر دو (2) قبروں کے پاس سے ہوا، آپ صلى اللهُ عَلَيْهِ والیم وسلم ٹھہر گئے ، لہذا ہم بھی آپ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَالِلهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ ٹھہر گئے ، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ لِلهِ وَسَلَّمَ کا رنگ مبارک تبدیل ہونے لگا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قمیص مبارک کی آستین کپکپانے لگی، ہم نے عرض کی: یارسول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! کیا معاملہ ہے ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تم بھی وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں ؟ ہم نے عرض کی: یا رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والیم وَسَلَّم! آپ کیا سن رہے ہیں ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان دونوں افراد پر ان کی قبروں میں انتہائی سخت عذاب ہو رہا ہے وہ بھی ایسے گناہ کی وجہ سے جو حقیر ہے (یعنی ان دونوں کے خیال میں معمولی تھا یا پھر یہ کہ اس سے بچنا ان کے لئے آسان تھا ) ہم نے عرض کی : وہ کون سا گناہ ہے ؟ تو آپ صلی اللهُ عَلَيْهِ وَالهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان میں سے ایک پیشاب سے نہ بچتا تھا اور دوسرا اپنی زبان سے لوگوں کو اذیت دیتا اور چغلی کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کی دو (2) ٹہنیاں منگوائیں اور ان میں سے ہر ایک قبر پر ایک ایک ٹہنی رکھ دی، ہم نے عرض کی : یا رسول الله صَلَّى اللہ ُعَلَيْهِ وَسَلَّمَ ! کیا یہ چیز ان کو کوئی فائدہ دے گی ؟ آپ صلى الله علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں ! جب تک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں گی ان سے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔ (صحیح ابن حبان، كتاب الرقائق، باب الانكار، حدیث:821،2/96 " لايستنزه " بدله " لا يستتر")

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح کاٹ دیتی ہیں جیسے چرواہا درخت کو کاٹ دیتا ہے۔(الترغيب والترهيب كتاب الادب، رقم : 4342، ج 3، ص405)

اللہ پاک کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ پاک یاد آجائے اور اللہ پاک کے بدترین بندے چغلی کھانے کے لئے ادھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں کے در میان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں۔ (مسند امام احمد، مسند الشاميين، حديث عبد الرحمن بن غنم الاشعرى، 291/2 حدیث: 18020)

لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَاتُ یعنی چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔(بخاری، کتاب الادب، باب ما يكره من النميمة ، الحديث 2056 ، ص 512)

حضرت سیدنا كعب الأحبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، ایک دفعہ حضرت سیدنا موسیٰ عَلَيْهِ السلام کے زمانے میں سخت قحط پڑ گیا۔ آپ عَلَيْهِ السلام بنی اسرائیل کی ہمراہی میں بارش کے لئے دعا مانگنے چلے لیکن بارش نہ ہوئی، آپ علیہ السلام نے تین دن تک یہی معمول رکھا لیکن بارش پھر بھی نہ ہوئی۔ پھر اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل ہوئی، اے موسیٰ ! میں تمہاری اور تمہارے ساتھ والوں کی دعا قبول نہیں کروں گا کیونکہ ان میں ایک چغل خور ہے۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے پروردگار ! وہ کون ہے تاکہ ہم اسے یہاں سے نکال دیں۔ اللہ پاک کی طرف سے جواب ملا: اے موسیٰ ! میں تو بندوں کو اس سے روکتا ہوں۔ حضرت سیدنا موسیٰ عَلَيْهِ السلام نے بنی اسرائیل کو حکم فرمایا کہ تم سب بار گاہ الہی میں چغلی سے تو بہ کرو۔ جب سب نے توبہ کی تو اللہ پاک نے انہیں بارش عطا فرمادی۔ (احیاء العلوم، کتاب الاذكار والدعوات، الباب الثاني، 307/1)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں چغل خوری جیسی بیماری سے دور رکھے آمین