چغلی کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں  کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔ افسوس! آج ہمارے معاشرے میں چغلی کا مرض عام ہے۔ بدقسمتی سے بعض لوگوں میں یہ مرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود اس کا علاج نہیں ہوپاتا۔ ایسوں سے گزارش ہے کہ چغل خوری کی مذمت میں الله کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین ملاحظہ کریں اور چغل خوری کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لئے مرنے سے پہلے کامل توبہ کر لیں ۔ آئیے احادیث کی روشنی میں چغل خوری کی مذمت سنتے ہے

01 : الله کے بد ترین بندے :وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنْمٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خِيَارُ عِبَادِ اللّٰهِ الَّذِينَ إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللّٰهُ. وَشِرَارُ عِبَادِ اللّٰهِ الْمَشَّاؤُونَ بِالنَّمِيْمَةِ وَالْمُفَرِّقُونَ بَيْنَ الْأَحِبَّةِ الْبَاغُونَ الْبُرَآءَ الْعَنَتَ۔ ترجمہ :- روایت ہے حضرت عبدالرحمان ابن غنم اور اسماء بنت یزید سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب دیکھے جائیں تو الله یاد آجائے اور الله کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں،دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے۔

"حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی فرماتے ہے کہ اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ فساد و نفاق کے لیے چغلی کھانا ممنوع ہے"(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4871 )

02* چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا *عن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يدخل الجنة قتات.حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا“ ( سنن ابی داوُد، کتاب الأدب، باب فی القتات، حدیث 4871)

03 * رب تعالیٰ کتے کی شکل میں جمع کرۓ گا *حضرت علاء بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی، باب البہتان وماجاء فیہ، ص 237، الحدیث: 216 )

04 * چغلی کی وجہ سے عذاب قبر میں گرفتار *حضرت عبدالله بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا۔( بخاری، کتاب الوضو ء،جلد 1، الحدیث: 218 )

''چغل خوری کے بہت سارے نقصانات ہے اس سے کئی جانے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے آئیے اس کا اندازہ اس حکایت سے لگاتے ہے :-"حضرت حَمّاد بن سَلَمَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک شخص نے غلام بیچا اور خریدار سے کہا: اس میں چغل خوری کے علاوہ کوئی عیب نہیں۔اس نے کہا: مجھے منظور ہے اور اس غلام کو خرید لیا۔غلام چند دن تو خاموش رہا پھر اپنے مالک کی بیوی سے کہنے لگا:میرا آقا تجھے پسند نہیں کرتا اور دوسری عورت لانا چاہتا ہے،جب تیرا خاوند سو رہا ہو تو اُسْتَرَے کے ساتھ اس کی گدی کے چند بال مونڈ لینا تاکہ میں کوئی منتر کروں اس طرح وہ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ دوسری طرف اس کے شوہر سے جا کر کہا :تمہاری بیوی نے کسی کو دوست بنا رکھا ہے اور تمہیں قتل کرنا چاہتی ہے،تم جھوٹ موٹ سوجاناتاکہ تمہیں حقیقت حال معلوم ہو جائے۔ چنانچہ وہ شخص بناوٹی طور پر سو گیا، عورت اُسْتَرَا لے کر آئی تو وہ سمجھا کہ اسے قتل کرنا چاہتی ہے لہٰذا وہ اٹھا اور اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ پھر عورت کے گھر والے آئے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا اور اس طرح چغل غور کی وجہ سے دو قبیلوں کے درمیان جنگ ہوگئی"۔ (احیاء العلوم ،3/194)

05 * عذاب قبر تین حصوں میں تقسیم ہے *حضرت قتادَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : عذابِ قبر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:(1)ایک تِہائی عذابِ غیبت کی وجہ سے (2)ایک تِہائی چغلی کی وجہ سے اور (3)ایک تِہائی پیشاب(کے چھینٹوں سے خود کو نہ بچانے)کی وجہ سے ہو تا ہے۔ ( اثبات عذاب القبربیھقی ، ص136 ، حدیث : 238) 

06 * فرمان کعب الاحبار *حضرت کعب احبار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: چُغلی سے بچو کہ بلاشُبہ چغلی کرنے والا عذابِ قبر سےمحفوظ نہیں رہتا۔ (76کبیرہ گناہ، ص154) 

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے اور چغلی جیسی مذموم بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

" آمین بجاہ خاتم النبیین و یس و طه صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم