محمد احمد
رضا عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ قادر پورراں ملتان ، پاکستان)
چغلی کی تعریف:کسی
کی بات ضَرر (یعنی نقصان )پہنچانے کےاِرادے سے دُوسروں کو پہنچانا چُغلی ہے۔ (عُمدۃُ
القاری ج2 ص 594)
چغلی ایک بہت
ہی قبیح(بُرا) فعل ہے،مگر افسوس کہ دوسرے گناہوں کی طرح یہ فعلِ بد بھی معاشرے میں
ناسُور کی طرح پھیل رہا ہے۔آئیے ہم چغلی سے بچنے کی ترغیب حاصل کرنے کے لئے چغلی کی
مذمت میں آیتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں، اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے:هَمَّازٍ
مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍترجمہ کنزالایمان:بہت
طعنے دینے والا بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنے والا۔(پ29،القلم:11)
حضرت سیِّدُناحسن
بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا: ” هَمَّازٍ “وہ شخص ہےجو مجلس میں اپنے
بھائی کی چغلی کھاتا ہے۔ (تفسیر بغوی،القلم ،تحت الآیۃ:11 ،5/136)
"چغلی کی
مذمت میں احادیثِ مبارکہ"1):قَالَ حُذَيْفَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ "ترجمہ:حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔( مسلم،
کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، ص66، الحدیث: 290)
2):عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
بْنِ غَنْمٍ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
" خِيَارُ عِبَادِ اللَّهِ الَّذِينَ إِذَا رُءُوا، ذُكِرَ اللَّهُ،
وَشِرَارُ عِبَادِ اللَّهِ الْمَشَّاؤُونَ بِالنَّمِيمَةِ، الْمُفَرِّقُونَ بَيْنَ
الْأَحِبَّةِ، الْبَاغُونَ الْبُرَآءَ الْعَنَتَ" .ترجمہ:حضرت عبد الرحمٰن بن غنم اشعری رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا
جائے تو اللہ تعالیٰ یا د آجائے اور اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے
لئے اِدھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی
خامیاں نکالنے والے ہیں۔(مسندامام احمد،مسندالشامیین،حدیث عبد الرحمٰن بن غنم
الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ،6/ 291،الحدیث:18020)
3):عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،
قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ
فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا
أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَبْرِئُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ
يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ،
ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ
صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ: لَعَلَّهُمَا أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ
يَيْبَسَا"ترجمہ:عبداللہ بن
عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبر کے پاس سے
گزرے تو آپ نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ کسی بڑے جرم میں
عذاب نہیں دئیے جا رہے ہیں، رہا ان میں سے ایک تو وہ اپنے پیشاب سے اچھی طرح پاکی
حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا دوسرا تو وہ چغل خوری کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی ایک
ہری ٹہنی لی (اور) اسے آدھا آدھا چیر دیا، پھر ہر ایک کی قبر پہ گاڑ دیا“، تو
لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا کر دیا جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ
ہوں“۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/باب وَضْعِ الْجَرِيدَةِ عَلَى الْقَبْرِ/حدیث:
2071]
4):حضرت علاء
بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ
پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے
والوں کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔( التوبیخ
والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی، باب البہتان وماجاء فیہ، ص237، الحدیث: 216)
5): نبئ مکرم
، شفیعِ معظم، رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تم
کو یہ نہ بتاؤں کہ بدترین حرام کیا ہے ؟ یہ چغلی ہے جو لوگوں کی زبان پر رواں ہو
جاتی ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں
تک کہ ( اللہ تعالیٰ کے ہاں ) وہ صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی
کہ اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔
(صحیح مسلم،
کتاب البر والصلۃ والادب ،باب تحریمۃ النمیمہ،ح 6636)
آخر میں مالکِ
لم یزل سے دعا کے کہ وہ ہمیں بقیہ تمام گناہوں کہ ساتھ ساتھ غیبت جیسے قبیح عمل سے
بچنے کی بھی توفیقِ سعید عطا فرمائے۔ آمین