اخوّت کے معنی بھائی چارہ کے ہیں۔ اخوت کا رشتہ تمام مسلمانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے کوئی مسلمان خواہ دنیا کے کسی گوشے میں آباد ہو خواہ اس کا تعلق کسی بھی نسل رنگ قبیلے سے ہو اور وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو وہ دوسرے مسلمانوں سے اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ رکھتا ہے ۔تمام مسلمان رشتہ اخوت میں پروئے ہوئے ہیں۔ اور یہ رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو نہیں توڑ سکتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل عرب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی بدولت وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین میں رشتہ اخوت قائم کیا۔ انصار نے ایثار و قربانی کا اعلی نمونہ پیش کیا۔ اس بھائی چارے کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کی مثال ایک انسانی جسم سے دیتے ہوئے فرمایا کہ: باہمی شفقت اور مہربانی میں تم اے اہل ایمان کو ایک جسم کی طرف پاؤ گے۔ اگر جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم اس تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

مسلمانوں کے باہمی رشتے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان آپس میں ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ اخوت کے متعلق فرمایا: لوگوں میری بات غور سے سنو اور جان لو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا مال جائز نہیں، جب تک وہ اپنی مرضی سے نہ دے اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو ۔

اسلام نے رنگ و نسل کے امتیازات کو ختم کر کے، دین اسلام کی بنیاد پر سارے مسلمان کو بھائی بھائی بنا دیا ہے اور اخوت ایک ایسی نعمت ہے جسے ساری دنیا کی دولت خرچ کر کے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا مگر اسلام کی بدولت اللہ پاک نے مسلمانوں کو اس سے نواز رکھا ہے۔

اخوت کے رشتہ نے امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کر دیا ہے، پوری امت کا ایک کلمہ پڑھنا ،باجماعت نماز ادا کرنا ،رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور سال میں ایک بار حج کرنا، ملت اسلامیہ کا اتحاد کی واضح مثالیں ہیں۔ رشتہ اخوت سے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اسی لئے اللہ پاک نے دو مسلمانوں کے درمیان لڑائی کی صورت میں فوراً صلح کروانے کا حکم دیا ہے۔ اور دو مسلمانوں کا آپس میں تین دن سے زیادہ ناراض رہنا ناجائز قرار دیا ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ عظیم میں دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے رشتہ اخوت اور بھائی چارے کو قائم و دائم رکھےاور مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے۔(اٰمین)