والدین کے ساتھ ساتھ دیگر
اہلِ خاندان مثلاً بھائی بہنوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ والد صاحب کے بعد دادا جان
اور بڑے بھائی کا رتبہ ہے کہ بڑا بھائی والد کی جگہ ہوتا ہے۔ مصطفےٰ جان رحمت شمع
بزمِ ہدایت، تاجدارِ رسالت، صاحب جودو سخاوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان
رحمت نشان ہے: بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسے والد کا حق اولاد پر۔
( شعب الایمان، 6 / 210 ،حدیث: 7929)
اخلاق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلکیاں:
میٹھے میٹھے آقا مکے مدینے والے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یقیناً تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مکرم ، معظم اور محترم ہیں اور ہر حال میں آپ کا احترام کرنا ہم پر فرض اعظم ہے۔ اب آپ
حضرات کی خدمت میں سیدالمرسلین، جناب رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
اخلاق حسنہ کی چند جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو بالخصوص احترام مسلم کے لئے ہماری رہنما ہیں۔
سلطان دو جہان صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ہر وقت اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور صرف کام ہی کی بات کرتے آنے
والوں کو محبت دیتے، ایسی کوئی بات یا کام نہ کرتے جس سے نفرت پیدا ہو قوم کے معزز فرد کا لحاظ فرماتے اور اس کو قوم
کا سردار مقرر فرما دیتے، لوگوں کو اللہ پاک
کے خوف کی تلقین فرماتے ،صحابہ کرام
علیہم الرضوان کی خبر گیری فرماتے ، لوگوں کی اچھی باتوں کی اچھائی بیان کرتے اور
اس کی تقویت فرماتے ، بری چیز کو بری بتاتے اور اس پر عمل سے روکتے، ہر معاملے میں اعتدال ( یعنی میانہ روی) سے کام
لیتے ، لوگوں کی اصلاح سے کھبی بھی غفلت نہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھتے بیٹھتے ( یعنی ہر وقت ) ذکر آللہ کرتے رہتے، جب کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو
بھی اسی کی تلقین فرماتے، اپنے پاس بیٹھنے والے کے حقوق کا لحاظ رکھتے، آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والے ہر فرد کو یہی محسوس ہوتا کہ
سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ خدمت بابرکت میں حاضر
ہو کر گفتگو کرنے والے کے ساتھ اس وقت تک تشریف فرما رہتے جب تک وہ خود نہ چلا
جائے جب کسی سے مصافحہ فرماتے ( یعنی ہاتھ
ملاتے ) تو اپنا ہاتھ کھینچنے میں پہل نہ
فرماتے، سائل ( یعنی مانگنے والے) کو عطا
فرماتے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
سخاوت وخوشی خلقی ہر ایک کے لئے عام تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس علم ، بردباری،حیا، صبر اور امانت کی مجلسِ تھی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں شوروغل ہوتا نہ کسی کی تذلیل ( یعنی بے عزتی
)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس
میں اگر کسی سے کوئی بھول ہو جاتی تو اس کو شہرت نہ دی جاتی ، جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل توجہ
فرماتے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم کسی کے چہرے پر نظر یں نہ گاڑتے تھے۔(حوالہ احترام مسلم، ص 5 )
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم : جو مسلمان اپنے بھائی سے مصافحہ کرے اور کسی کے دل میں دوسرے سے
عداوت نہ ہو تو ہاتھ جدا ہونے سے پہلے اللہ پاک دونوں کے گزشتہ گناہوں کو بخش دے
گا اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی طرف محبت بھری نظر سے دیکھے اور اس کے دل میں
کینہ نہ ہو تو نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔
(
کنزالعمال ، 9 / 57، حدیث 25358 )