محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے راشدین
،راولپنڈی)
اللہ
پاک اپنی عظیم نعمت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ
قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْؕ ترجمہ
کنزالایمان: ”اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے تو ان کے دل نہ ملا سکتے
لیکن اللہ نے ان کے دل ملا دیے“۔ ( پ10،
الانفال:63)
اللہ
پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے جس نے اسلام جیسی نعمت سے اپنے بندوں کو نوازا تو وہ
اس نعمت سے بھائی بھائی بن گئےاور ان کے سینوں سے بغض وکینہ نکل گیا جس سے وہ دنیا
میں ایک دوسرے کے دوست اور راز دار بن گئے اور آخرت میں ایک دوسرے کے رفیق اور
خلیل ہونگے۔
رضائے الہی کے لئے کسی
سے محبت کرنا اور دین کی خاطر بھائی چارہ اور اخوت قائم کرنا اعلٰی ترین نیکی اور
افضل عبادت ہے ۔اس کی اہمیت کا اندازہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے
اس فرمان سے لگایاجاسکتاہے، فرماتے ہیں کہ:”اللہ پاک
کی قسم! اگر میں دن میں روزہ رکھوں اور افطار نہ کروں رات بھر بغیر سوئے قیام کروں
اور وقفے وقفے سے اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرتا رہوں لیکن جس دن مروں اس دن
میرے دل میں اللہ پاک کے نیک بندوں کی محبت نہ ہو تو یہ تمام چیزیں مجھے کچھ نہ
دیں گے۔(احیا العلوم(مترجم) 2/579 )
بھائی چارگی دو شخصوں کے درمیان ایک رابطہ وتعلق
ہے جیسے مرد وعورت کے درمیان نکاح رابطہ و تعلق ہوتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان ہے کہ،” دو بھائیوں کی مثال دو ہاتھوں کی طرح ہے کہ ایک دوسرے کو دھوتا
ہے“
(
الترغیب فی فضائل الاعمال،1/493،حدیث:433)
حدیث
پاک میں دو بھائیوں کو دو ہاتھوں سے تشبیہ دی ہے کیوں کہ دونوں ہاتھ ایک ہی کام
اور مقصد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اسی طرح دو بھائیوں کے درمیان اخوت و
بھائی چارہ تب مکمل ہوتا ہے جب دونوں ایک دوسرے کے تمام تر معاملات میں معاون و
مددگار ہوں گویا کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں اور اسی وجہ سے ہر خوشی و غمی میں ایک
دوسرے کا ساتھ ہونا معاشرے کو خوبصورت اور ماحول کو خوشگوار بناتا ہے اور
تمام ہی دینی و دنیاوی معاملات اعلی طرز
پر جاری رہتے ہیں اللہ پاک ہمارے معاشرے کو اخوت و بھائی چارگی جیسی نعمت سے
مالامال فرمائے۔آمین