عفو درگزر کے معنی معاف کر دینے کے ہیں یعنی کسی کی غلطی کرنے پر اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کر دینا ہے۔

مدنی آقاﷺ کا عفو و درگزر:

حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، ایک دم ایک بدوی (یعنی دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کراتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ سلطان زمن، محبوب رب ذوالمنن ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آ گئی، وہ کہنے لگا: اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے، آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/ 359، حدیث: 3149)

ہر خطا پر مری چشم پوشی، ہر طلب پر عطاؤں کی بارش

مجھ گنہگار پرکس قدر ہیں، مہرباں تاجدار مدینہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر واور جو تم سے قطع تعلّق کرے (یعنی تعلق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کومعاف کردو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہوکہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اوراسکے درجات بلند کیے جائیں، اسے چاہیے کہ جو اس پرظلم کرے یہ اسے معاف کرے اورجو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اورجو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث: 3215)

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم المرسلینﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کاقصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

معزز کون؟

حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام نے عرض کی: اے ربّ اعلیٰ !تیرے نزدیک کون سابندہ زیادہ عزّت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان 6/319، حدیث: 8327)

معاف کرو معافی پاؤ: سرکار دو جہاں ﷺ کافرمان عالیشان ہے: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنااختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)