عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا، بخش دینا، درگزر کرنا، بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں، الله پاک ارشاد فرماتا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

معلوم ہوا کہ لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا رب کریم کو بہت پسند ہے یادرہے! شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اسے ہرگز یہ گوارہ نہیں کہ مسلمان آپس میں متحد رہیں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرے ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرے اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرے اپنے حقوق معاف کر دیا کرے دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرے وغیرہ کیونکہ اگر ایسا ہو گا تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور شیطان ناکام و نامراد ہو جائے گا اس لئے وہ مسلمانوں کو معاف کرنے اور غصے پر قابو نہیں پانے دیتا لہذا شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار کو ناکام بنا دیجئے اور درگزر کرنا اختیار کریں۔

یاد رہے کسی مسلمان سے غلطی ہو جانے پراسے معاف کرنا اگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تو الله پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی قرار پائیں گے ان شاءالله اس کے بارے میں 5 احادیث مبارکہ سنئے اور لوگوں کو معاف کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ تین باتیں جس شخص میں ہوگی الله کریم قیامت کے دن اسکا حساب آسان طریقے سے لے گا اور اسکو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی: یارسول الله ﷺ وہ کونسی تین باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے اسکو عطا کرو اورجو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو جو تم پر ظلم کرے تم اسکو معاف کر دو۔ (معجم اوسط،1/542، حدیث:5064)

2۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجراللہ پاک کے ذمے کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث:1998)

3۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن الله پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

4۔ ہر دور میں میرے امتیوں کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس ہیں نہ پانچ سو سے کوئی کم ہوتا ہے اور نہ ہی چالیس سے جب چالیس ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو رب کریم پانچ سو میں سے ایک کو اس فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرر فرماتا اور یوں 40 کی کمی پوری فرماتا ہے عرض کی گئی ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمائیے فرمایا ظلم کرنے والے کو معاف کرتے برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے اور الله پاک نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء، 1/39، حدیث: 15)

5۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول الله ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال دہرایا آپﷺ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں 70 کا لفظ یعنی بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کے غلام سے خطا غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی قصور نہ ہو کر یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔ (مراة المناجیح، 5/170)

آپ نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاءالله اس کی برکت سے جنت کے خوشخبری سے نوازہ جائے گا کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کر کے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں مگر افسوس آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچا دے یا ذرا سی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ دیتے ہیں اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم رحمت کونین نانائے حسنین کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ آقا ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔