عفو درگزر کے معنیٰ: عفو درگزر کے معنیٰ معاف کرنے کے ہیں (یعنی لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرنا درگزر کرنا وغیرہ) اپنی غلطی کو مان کر دوسروں سے معافی مانگ لینے سے ہماری عزت کم نہیں ہو جاتی بلکہ ہماری عزت اللہ اور لوگوں کے نزدیک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے لہٰذا ہمیں اپنی غلطی تسلیم کر کے دوسروں سے معافی مانگ لینی چاہیے اور دوسروں کو بھی معاف کر دینا چاہیے۔

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم المرسلین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس(معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

اور معاف کرنے سے روز حشر حساب میں بھی آسانی ہوگی آئیے اس بارے میں ایک حدیث سنتی ہیں، چنانچہ

حساب میں آسانی کے تین اسباب:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ (قیامت کے دن)اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو۔ جو تم سے قطع تعلق کرے (یعنی تعلق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو۔ جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کر دو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معاف کر دینے سے اللہ حساب بہت ہی آسان طریقے سے لے گا اور ہمیں اپنی رحمت و کرم سے جنت میں داخل فرما دے گا۔ اب ہم ایک آیت کریمہ سے عفو درگزر کے فضائل بیان کرتے ہیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں: (1) خوشحالی اور تنگدستی دونوں حال میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا (2) غصہ پی جانا (3) لوگوں کو معاف کردینا (4) احسان کرنا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ معاف کر دینا متقین لوگوں کا ایک وصف ہے اور معاف کر دینے سے ہم متقین لوگوں کی فہرست میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

اب ہم عفو درگزر کے فضائل بیان کرتے ہیں:

فضائل عفو و درگزر: احادیث میں عفوو درگزر کے بھی کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے دو فضائل درج ذیل ہیں:

(1) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

ان فضائل سے ہمیں معلوم ہوا کہ معاف کرنا نہایت ہی اچھا وصف ہے اسی طرح کہا جاتا ہے کہ حقوق اللہ سے حقوق العباد زیادہ سخت ہوتے ہیں اس لیے اگر ہم نے کسی کا دل دکھایا ہو تو ہمیں معافی مانگ لینی چاہیے اور اگر کسی نے ہماری دل آزاری کی ہو تو ہمیں بھی اس کو معاف کر دینا چاہیے۔

معزز کون؟ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

سبحان اللہ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کے نزدیک وہ شخص زیادہ محبوب ہے جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود بھی معاف کر دے معاف کرنا کیسا ہی اچھا عمل ہے اللہ ہمیں بھی دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کی اور اپنی غلطی مان کر معافی مانگے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سبحان اللہ معاف کرنے سے انسان کو جنت بھی نصیب ہو جاتی ہے اللہ ہمیں بھی عفو درگزر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کیوں میری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو جس کو ہے مری لاج وہ لجپال بڑا ہے