میانہ روی اور اعتدال(درمیانی راہ)اختیار
کرنے میں فائدے ہی فائدے ہیں بھلے وہ دُنیا کا معاملہ ہو یا دین کا، میانہ روی سے کی جانے والی عبادات میں دِل جمعی اور اِستقامت نصیب ہوتی ہے، اپنے اور متعلقین کے حقوق کی ادائیگی میں سہولت رہتی ہے اور بندہ آسانی سے کامیابی کی منزلوں تک رسائی حاصل
کرسکتا ہے ، کیونکہ عبادات میں میانہ روی اللہ عزوجل کے نیک بندوں کا طریقہ اور ان کی سُنّت ہے، اس
کی پیروی میں عا فیت اور آسانی ہے، اسلام میں میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ
اِرشادِ باری تعالی ہے: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ
اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)
ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے
نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )
علامہ علاءُالدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " جب مشرکین نے خاتم النبین
صلی اللہ
علیہ وسلم کو عبادت میں بہت
زیادہ کوشش کرتے دیکھا تو کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر قرآن( پاک) اس لیے اُتارا گیا ہے کہ تم مشقت میں
پڑو ۔"اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل
ہوئی۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، جلد 2 ، ص421۔422)
حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وَعَن ا بْنِ مَسْعُوْدِِ رضی
اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ھَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ
قَالَھَا ثَلَاثَا۔
ترجمہ:"حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا: "غُلُوّ و تکلُّف
کرنے والے ہلاک ہو گئے"۔
امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاملے کی گہرائی میں
پڑتے ہیں اور جہاں شدت کی حاجت نہ ہو وہاں شدّت کرتے ہیں۔
(فیضان ریاض
الصالحین، جلد 2، ص438)
عَنْ اَبِیْ عَبْدِ
اللہِ جَابِرْ بِنْ سَمْرَۃَ السُّوَانیِ رضی اللہ عنہما قَالَ: کُنْتُ اُصَلِّی مَعَ
النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلَوٰاتِ فَکَانَتْ
صَلَاتُہٗ قَصْدََا وَ خُطْبَتُہٗ قَصْدََا۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا۔"(فیضان
ریاض الصالحین، ج2، ص450۔451)
اس سے معلوم ہوا کہ میانہ روی کامیابی
کیلئے ضروری ہے، دین و دنیا دونوں معاملات
میں میانہ روی اختیار کی جائے، عبادت میں اس قدر شدّت نہ کی جائے کہ حقوق العباد
(بندوں کے حقوق ) تلف (ضائع ) ہو جائیں اور نہ بہت کمی کی جائے، اعتدال و استقامت
کے ساتھ چلا جائے، جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے تو اس میں بھی میانہ روی ضروری
ہے، زیادہ دنیا میں مگن ہو جانا ، دولت زیادہ کرنے کی ہوس (خواہش ) ہونا ، دین سے دور کرتا ہے اور خدا نخواستہ ایمان ضائع
ہونے کا اندیشہ ہے اور دنیا کو بالکل چھوڑنا بھی نہ چاہیے کہ حقوق اللہ کے
ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ضروری ہیں، دنیا کا استعمال جتنا بھی کرے اُس سے اپنی آخرت
سنْوارے، مُباح کاموں پر اچھی نیت کرلے تا
کہ اچھی نیت پر ثواب ملے ۔
اللہ کریم ہمیں دین و دُنیا کے معاملے میں میانہ
روی اور اعتدال اختیار کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم