اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے،  جو اس کے ہر معاملے اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے، اعتدال و میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام و امور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو، نہ تفریط ہو، یعنی نہ شدت ہواور نہ کوتا ہی ہو، جب دینِ اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے، جو اس کو تمام اَدیان سے ممتاز بناتی ہے، لازمی طور پر اُمّتِ مسلمہ کی بھی یہی خصوصیات ہوں گی، وہ عدل و اعتدال سے مُتصف اور افراط و تفریط سے مُبراء رہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(سورۃ البقرہ ، 143)

اللہ پاک نے اس امت کو اُمتِ وسط کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ اپنے دین کے ہر معاملے میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بے شمار پہلوؤں میں ایک پہلو اعتدال و میانہ روی بھی ہے، اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کا طُرّہ امتیاز اور محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، گفتگو کرنا، تجارت ومعاملات کرنا الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا، اعتدال و میانہ روی کی نمایاں عکاسی کرتی ہے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال و میانہ روی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:" کھاؤ، پیو ، پہنو اور صدقہ کرو، جب تک اس میں اِسراف وتکبّر کی آمیزش نہ ہو۔"

(سنن ابن ماجہ)

خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کی تمام تر تعلیمات اعتدال و میانہ روی پر مبنی ہیں، چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یا دوسرے اُمور سے ہو۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم