افراط و تفریط،  انتہا پسندی، شدت اور بے اعتدالی اُن خصوصیات میں شامل ہیں، جن کو کبھی مفید اور پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، افراط و تفریط چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو اور کسی بھی کام میں اس کا مظاہرہ کیا جائے، نتائج و اثرات کے لحاظ سے نقصان رساں اور مایوس کُن ہوتی ہے، بُرے اعمال تو ایک طرف رہے، اچھے اعمال اور نیک افعال میں انتہا پسندی اچھی اور مستحسن نہیں ہے۔

اسلام دین فطرت ہے اور اسی لئے اس کا دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل، متوازن اور معتدل نظام ہے، افراط وتفریط کی اس نے کسی شعبہ زندگی میں بھی اجازت نہیں دی ہے۔

قرآن مجید میں مسلمانوں کو اُمتِ وسط کے خطاب سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

یعنی: ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔

(سورۃ البقرہ، ، 143)

مسلمانوں کو امتِ وسط کہہ کر واضح کردیا گیا ہے کہ درمیان کا راستہ اور اعتدال کا طریقہ ان کے نمایاں اوصاف میں شامل ہونا ہے، چنانچہ غلو سے پر ہیز، انتہا پسندی سے گریز اور میانہ روی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے، مسلمانوں کو صاف بتادیا گیا ہے کہ

ترجمہ کنز الایمان: "اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا"(بنی اسرائیل، 29)

بخل کی عادت انسان کو اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے لُطف اندوز نہیں ہونے دیتی اور فضول خرچی سے بالآخر انسان تنگ دست ہو کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے، اسی لئے اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی گئی ہے، سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔

(الفرقان، 67)

میانہ روی مؤمن کی صفت ہے، مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روکتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔" ( شہید حکیم محمد سعید)