میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے، اس کے برعکس انتہا پسند ی ، شدت پسندی اور بے اعتدالی کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، شدت و انتہا پسندی دین و دنیا کے کسی بھی شعبے میں ہو، اس کے نتائج و اثرات نقصان رساں اور مایوس کُن نکلتے ہیں، اسی لئے میانہ روی اور اعتدال کی اِسلام میں بہت اہمیت ہے، اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کا دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل، متوازن اور معتدل نظام ہے۔

ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ حق کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو دینِ حق کی جانب بلانا شروع کیا، لیکن اس وقت عرب کے لوگ اس قدر بے راہ اور کفر و شرک کی اتنی تاریکی میں تھے کہ حق کی روشنی میں ان کے لئے کشش نہ تھی، ان کی بے حسی نے ان کو اعلان حق پر بھی کان دھرنے نہ دیا، اپنی قوم کی نفرت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملال ہوتا اور دل دکھتا، اللہ پاک نے جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینِ اسلام کے لئے اس قدر پریشان دیکھا تو فرمایا: مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)

ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )

اس ارشادِ ربّانی پر غور فرمائیے، حق کا معاملہ ہے، اس کی دعوتِ عام کا مرحلہ درپیش ہے، اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی حالت پر غمگین ہیں، لیکن اس میں بھی شدت سے منع کیا جا رہا ہےتو توازن و اعتدال کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ قیامِ حق میں بھی اس کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی، میانہ روی کی تاکید صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں، بلکہ اِسلام کی امتیازی خصوصیات میں میانہ روی اور اعتدال شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کو "الکتاب " کے علاوہ "المیزان" اور مسلمانوں کو اُمتِ وَسط کے خطاب سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا

ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔

(سورۃ البقرہ ، 143)

اسی طرح خرچ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:ترجمہ کنز الایمان: "اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا"

(بنی اسرائیل، 29)

اس آیت کا منشا بھی یہی ہے کہ انسان نہ کنجوسی اختیار کرے اور نہ اِسراف کرے، یہ دونوں طریقے غلط ہیں اور میانہ روی کے خلاف ہیں، بلکہ میانہ روی کو اللہ عزوجل نے مومن کی صفت کہا ہے۔

ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(الفرقان 67)

بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان عبادت میں غلو برتنے لگے اور پیروی حق کے جوش میں اعتدال کو نظر انداز فرمانے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹوکا اور میانہ روی کی تلقین کی،فرمایا:" اعتدال یعنی ہر کام کو افراط وتفریط کے بغیر کرنا نبوت کا پچیسواں حصہ ہے"۔

میانہ روی سب کے لئے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیا وی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مُفید نہیں، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے، اللہ پاک ہمیں دینِ اسلام اور قرآن و حدیث کے مطابق اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم