میانہ روی کا معنی و مفہوم:میانہ روی فارسی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کو "اعتدال" بھی کہتے ہیں۔

مفہوم:میانہ روی کے لفظی معانی "درمیانہ روش یا چال" کے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کی جائے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ، ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔(سورۃ البقرہ، 143)

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی اقوام زندگی کے مختلف شعبوں میں افراط وتفریط کا شکار ہو گئیں تھیں، اسی طرح وہ اپنے عقائد ، عبادات، معاشرتی اور معاشی زندگی میں افراط وتفریط کی روِش اپنا کر وہ فطرت کی راہ سے دور ہو گئیں، اسلام کے تمام عقائد میں میانہ روی کی روح شامل ہے، تو جس سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی نے تو اس امت مسلمہ کا نام ہی وسط و اعتدال والی امت بتایا ہے۔

معاشرت میں میانہ روی:

معاشرت میں میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ اُٹھنے بیٹھنے اور زندگی گزارنے کے مختلف پہلوؤں میں اعتدال کی راہ اختیار کرلی جائے، نیز گفتگو کرتے ہوئے نہ ہی اتنی بلند آواز سے گفتگو کی جائے اور نہ ہی اتنی دھیمی آواز سے گفتگو کرنی چاہیے بلکہ ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، اسی طرح کھانے پینے وغیرہ میں نہ اتنا کم کھانا چاہیے کہ آدمی کمزور ہوجائے اور نہ ہی اتنا زیادہ، اسی طرح پیدل چلتے وقت بھی میانہ روی سے کام لیا جائے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ ۔ ترجمہ کنز الایمان: " اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر۔" ( لقمان، آیت19)

میانہ روی کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: مَاعَالَ مَنِ ا قْتَصِد:ترجمہ:"جو میانہ روی اختیار کرے گا وہ محتاج نہ ہو گا۔"

معیشت میں میانہ روی:

روز مرہ زندگی میں ذاتی اخراجات ہوں یا گھریلو اخراجات، سب میں خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف سے کام لیا جائے اور نہ ہی بخل سے، بلکہ درمیانی راہ اپنائی جائے، مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا:"اور جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ ، نہ ضرورت سے زیادہ ، نہ کم۔"

میانہ روی کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال:

(*) جب تمہیں اپنے نفس کی اصلاح منظور ہو، تو میانہ روی اختیار کرو۔

(*) اللہ تعالی جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے میانہ روی، راست روی اور حسن تدبیر کی نعمت عطا فرماتا ہے۔

(*) میانہ روی کو لازم پکڑو، یہ فراغت کا بہت اچھا معاون (مددگار) ہے۔

(*) تین عادتیں ایسی ہیں، اگر وہ کسی میں پائی جائیں تو وہ کامل ایمان والا کہلائے گا، (1) حالتِ غصہ اور خوشی میں انصاف کرنے والا۔(2) حالت فقر اور غنا میں میانہ روی اختیار کرنے والا۔(3) اللہ تعالی کا عذاب اور اس کی رحمت کی امید رکھنے والا۔

(*) اے بندے! خرچ میں میانہ روی اختیار کر اور اسراف کو ترک کردے۔