(1) لغوی معنی: اس سے مراد "برابر" اور "یکساں ہونا"۔

(2) اصطلاحی معنی: اعتدال و میانہ روی کا مطلب تمام احکام و امور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا، جس میں نہ افراط ہونہ تفریط، یعنی نہ شدت ہو اور نہ کوتاہی ہو۔

(3) قرآن مجید کی روشنی میں:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)

ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا "۔(پارہ 15،بنی اسرائیل،29)

(4)حدیث مبارکہ کی روشنی میں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم "درست رہنمائی، اچھی چال اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں جزو ہے"، دولتمندی میں میانہ روی کتنی اچھی بات ہے، فکر و فاقہ میں اور عبادت میں درمیانی چال کتنی اچھی صفت ہے، اعمال میں سب سے بہترین عمل وہ ہے جو درمیانہ درجہ کا ہو۔"

(5)واقعات :

حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کو نکلے، تو آپ نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر نماز میں پست آواز سے تلاوت کر رہے تھے اور حضرت عمر بلند آواز سے قراءت کر رہے ہیں،پھر جب یہ دونوں حضرات آپ کی مجلس میں اکٹھے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:"اے ابوبکر! جب میں تمہارے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ تم پست آواز سے قراءت کر رہے تھے، اس کی کیا وجہ تھی؟ ابوبکر نے جواب دیا، کہ میں اس کو سنا رہا تھا جس سے سرگوشی کر رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اے عمر !جب میں تمہارے پاس سے گزرا، تو دیکھا تم بلند آواز سے قراءت کر رہے ہو؟ حضرت عمر نے جواب دیا:' میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا تھا، چنانچہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے ابوبکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کرو، اور حضرت عمر سے فرمایا:" اے عمر !تم اپنی آواز پست کرو۔

ایک مرتبہ تین صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ ہر رات جاگ کر نماز پڑھتا رہوں گا، کبھی سویا نہیں کروں گا، دوسرے نے کہا:" کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں، کسی دن افطار نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا:" میں کبھی شادی نہیں کروں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:" جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اللہ پاک سے ڈرنے والا ہوں، لیکن مین کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی افطار کرتا ہوں، راتوں میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، لہذا جس نے میری سنت سے منہ پھیرا، وہ مجھ سے نہیں، اس حدیث مبارکہ میں واضح ہوتا ہے اللہ تعالی نے تمام امور میں غلوو تقصیر سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ دینی عبادات و تعلیمات میں بھی غلوو تقصیر سے کام لینا جائز نہیں۔