اعتدال کا مطلب ہے "دو حالتوں میں توسُّط اختیار کرنا۔"(مصباح اللغات)

میانہ روی اعتقادات، عبادات، معاملات و اخلاقیات ہر معاملے میں ضروری ہے، میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" دین آسان ہے اور جو دین میں سختی اختیار کرتا ہے، دین اس پر غالب آجاتا ہے، بس سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو، خوش رہو۔"(ریاض الصالحین، باب فی الاقتصاد فی الطاعۃ، ص 51، حدیث 145)

آج ہمارے معاشرے میں بداَمنی بڑھتی جا رہی ہے، گھروں میں ناچاقیوں کی فضا پھیلتی جارہی ہے، اِداروں کا اَمن و سکون تہہ و بالا ہو چکاہے، اس کی ایک وجہ اعتدال ومیانہ روی کا دامن چھوڑ کر افراط و تفریط سے کام لینا بھی ہے، آج ہمارے گھروں میں معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، ساس بہو کی لڑائیاں، میاں بیوی کی ناچاقیاں عام ہیں، حتیٰ کے نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آئے دن طلاق کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، اگر شوہر بیوی کے نامناسب رویّے پر فوری جذبات میں آ ئے، بیوی پر ہاتھ اٹھائے، طلاق دے کر اپنا گھر برباد کر نے کی بجائے اعتدال سے کام لے اور شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق بیوی کی سرزنش کے لیے مناسب اقدام اٹھائے تو کئیں گھر تباہ ہونے سے بچ سکتے ہیں، دینِ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں:

ترجمہ کنزالایمان:" اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو، تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو، پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو، بے شک اللہ بلند بڑا ہے۔(پارہ 5، سورۃ النساء، آیت34)

یوں ہی ہمارے معاشرے کا ایک اَلمیہ بگڑی ہوئی نسل بھی ہے، اس کی ایک وجہ اولاد کی تربیت میں میا نہ روی سے کام نہ لینا ہے، بعض والدین تو اولاد کے معاملے میں اس قدر نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اولاد کی بڑی غلطیوں پر بھی چشم پوشی سے کام لیتے اور درحقیقت اَنجانے میں ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں، اس کے برعکس بعض والدین معمولی معمولی باتوں پر بے جا سختی کا مظاہرہ کر کے اولاد کو باغی اور نافرمان بنا دیتے ہیں، والدین کو چاہیے کہ افراط و تفریط سے کام لینے کے بجائے اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں اِسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کریں، ان کو دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول فراہم کریں، ان شاء اللہ عزوجل ان کی اولاد ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی۔

یوں ہی اَساتذہ شاگردوں کے، سیٹھ ملازموں کے، اَفسر نوکروں کے بلکہ ہر حاکم اپنے محکوم کے معاملے میں اعتدال و میانہ روی سے کام لے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اَمن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم