پیٹ سے اُدھار:

ایک اللہ کا بندہ بازار سے گزر رہا تھا، قصائی نے آواز دے کر کہا، میاں جی! گوشت لے جاؤ؟کہنے لگے، میرے پاس پیسے نہیں،قصائی بولا:" کوئی بات نہیں،اُدھار کر لیں، اُنہوں نے کہا:" تُجھ سے اُدھار کرنے سے بہتر ہے میں اپنے پیٹ سے اُدھار کرلوں۔"

ایک دانا کا قول ہے:" امیر وہ نہیں جس کی آمدنی زیادہ ہو، امیر وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات آمدنی سے کم ہوں۔"

بعض افراد نہ پیٹ سے اُدھار کرتے ہیں اور نہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بس غربت کا رونا روئے جاتے ہیں، دل میں اُٹھنے والی ہر خواہش کو پورا کرنا یا کسی صاحبِ حیثیت شخص کو دیکھ کر اس کے طرزِ زندگی کو اپنانا عقلمندوں کا کام نہیں، ضرورت پوری کرنے پر توجّہ دینی چاہیے، خواہشات پوری کرنے پر نہیں، کیوں کہ خواہشات کی اِنتہا نہیں ہوتی۔

میانہ روی کا معنی:

اسلام دینِ کا مل ہے، اسلام ہمیں میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے، "میانہ روی" فارسی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اسےا عتدال کہتے ہیں، میانہ روی کا معنی ہے "درمیانہ راستہ"، زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفريط (کمی اور زیادتی) سے بچتے ہوئے درمیانہ راستہ اپنانا چاہیے، پرمسّرت اور کامیاب زندگی کے لیے میانہ روی نہایت ضروری ہے، کوئی بھی معاشرہ میانہ روی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، روز مرہ زندگی کے ذاتی معاملات ہوں یا گھریلو اخراجات، سب میں خرچ کرتے ہوئے نہ اسر اف(جہاں خرچ نہ کرنا ہو وہاں خرچ کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے) سے کام لیا جائے، نہ بخل (کنجوسی)کی جائے، بلکہ درمیانہ راہ اختیار کرنا چاہیے۔

اللہ تبارک تعالی کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال بیان فرماتا ہے،

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کہ کامل ایمان والے اسراف اور تنگی دونوں طرح کے مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔

مروی ہے کہ " جس نے کسی حق کو منع کیا، اس نے اِقتاریعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا اس نے اِسراف کیا۔"(صراط الجنان، ج 7، ص 56)

صدقہ و خیرات کرنے میں نہ بخل سے کام لیا جائے، نہ ہی اپنے بال بچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سارے کا سارا مال خرچ کر دیا جائے، یہاں تک کہ قرض لینے کی نوبت آ جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے،

ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا "۔(پارہ 15،بنی اسرائیل،29)

خوشحالی کا دارومدار:

مفتی احمد یار خان نعیمیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "کہ خوشحالی کا دارومدار دو چیزوں پر ہے، کمانا، خرچ کرنا، مگر ان دونوں میں خرچ کرنا بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں، خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنےکا سلیقہ آ گیا، وہ ان شاءاللہ عزوجل ہمیشہ خوش رہے گا۔

( مراۃ المناجيح، جلد6، ص634)

Social circle بچت کیسے کریں:

اپنے سوشل سرکل سے پرہیز کریں، جہاں ہر وقت مہنگی چیزوں اور فضول خرچی کے بارے میں بات چیت ہوتی ہو،ورنہ یہ صحبت آپ کو ہر وقت پیسے خرچ کرنے پر مجبور کرتی رہے گی۔

خواہشات کیسے کم ہوں:

شُکر گزاری کا مزاج ڈپریشن سے محفوظ رکھتا ہے، لا حاصل (جو پاس نہیں) کے لئے حاصل( جو پاس ہے) نہ چھوڑئیے، بہت سی ایسی چیزیں جو کسی وقت میں ہمارے لئے اس قدر اہم ہوتی ہیں کہ ہم ان کے حصول کے لیے روتے ہیں، چلاتے ہیں اور بہت ضد سے انہیں حاصل کر پاتے ہیں، ایک وقت آتا ہے وہ ہمارے لئے فالتو سامان سے زیادہ کُچھ نہیں ہوتیں، ان میں سے اکثر چیزوں کو ہم ایک عرصہ تک کبھی استعمال بھی نہیں کرتے، ہم لاحاصل کو بہت زیادہ پُرکشش اور عمدہ خیال کرتے ہیں اور حاصل کو ذرا خاطر میں نہیں لاتے، نتیجتاً ہمیں اپنے حاصل پر مطمئن ہونا چاہیے اور لاحاصل کے لئے دل اُداس نہیں کرنا چاہیے۔

طرزِ زندگی سادہ بنائیں:

زندگی آسان ہے، بس یہ بوجھ تو خواہشوں اور خوابوں کا ہے، ہر وقت کھاتے رہنے اور اور نِت نئے چسکے لگانے سے بندہ صحت مند نہیں ہوتا، وقت پر کھائیں، سادہ اور مناسب غذا استعمال کریں، ملبوسات میں(کپڑے، جوتے، رو مال وغیرہ قیمتی خریدنے کے بجائے آرام دہ اور کم قیمت خرید یں)۔

حدیث مبارکہ ہے:"مَا عَالَ مَنِ اقْتَصِدَ"جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہ ہوگا۔"

تیز گفتگو کرتے ہوئے اونچے اور سخت لہجے میں یا بالکل دھیمی آواز میں بات کرنے کے بجائے معتدل انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :ترجمہ کنز الایمان: "اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر۔" ٍ( لقمان، آیت19)

عبادت میں بھی میانہ روی:

اسلام میں عبادت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور قرآن مجید میں ہے" کہ انسان اور جنوں کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہی عبادت ہے"۔ عبادت کی اتنی اہمیت کے باوجود بھی عبادت میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور فرمایا:" کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم رات رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو، انہوں نے کہا: بے شک ایسا ہی ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسا نہ کرو، نماز بھی پڑھو اور سؤو بھی، روزہ بھی رکھو اور چھوڑو بھی کیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے، تمہاری آنکھ کا حق ہے، تمہارے مہمانوں کا حق ہے اور تمہارے بیوی بچوں کا حق ہے۔( صحیح بخاری، حدیث نمبر1975، صفحہ:39)

اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے ، " اتنا ہی عمل لازم کرو، جتنا تم آسانی سے کر سکو۔"

اللہ پاک سے دعا ہے، رب کریم ہمارے دلوں سے دنیوی خواہشات نکال کر فکرِ آخرت کا جذبہ دائمی ڈال دے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم