حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا۔

"یعنی بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کےساتھ کئے جائیں"۔

میانہ روی اور اعتدال کا مطلب:تمام افعال میں ایسی درميانی راہ اختیار کرنا کہ جس میں نہ تو افراط(زيادتی، حد سے بڑھنا) ہو اور نہ ہی تفریط(کمی کرنا) ہو۔

میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت:

میانہ روی کی اہمیت کا اندازہ اس حدیثِ مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو مکّہ مکرمہ میں ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، واپسی پر بھی اُسے اسی حالت میں پایا تو ارشاد فرمایا:" اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، بیشک اللہ عزوجل اجر عطا فرمانے سے نہیں اُكتاتا، بلکہ تم(عبادت سے)اُكتا جاتے ہو۔"

حدیثِ مذکورہ میں عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور تنگی میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے ، یہ حدیث نماز ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام نیک اعمال کو بھی شامل ہے۔

میانہ روی اختیار کرنا بھی” عبادالرحمن “کی صفات میں شامل ہے :

چنانچہ اللہ تعالی عبادالرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے سورة الفرقان کی آیت نمبر 67 میں ارشاد فرماتا ہے، وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

میانہ روی منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے:

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ میانہ روی اختیار کرو یعنی تم نفلی عبادات میں اتنی سختی نہ کرو کہ اُكتاہٹ کا شکار ہو کر نیک اعمال سے دور ہو جاؤ اور حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہو جاؤ ، خبردار! حد سے نہ بڑھو، درميانی راہ اختیار کرو، تم منزلِ مقصود تک پہنچ جاؤ گے، اپنے تمام اوقات، عمل میں نہ گزارو بلکہ نِشاط کہ اوقات کو غنیمت جانو اور وہ دن کا پہلا اور آخری حصّہ ہے اور رات کا کُچھ حصّہ ہے اور اپنی جانوں پر رحم کرو تا کہ ہمیشگی سے عبادت کر سکو ۔

میانہ روی اور اعتدال کا بہت زیادہ فائدہ ہے، کیوں کہ بسا اوقات انسان کسی کام میں شدّت اختیار کرتا ہے، تو وہ جلد ہی اُس کام سے اُکتا جاتا ہے اور اگر تفریط(كمی) سے کام لیتا ہے، تو اس کام کو اچھی طرح سے سرانجام نہیں دے سکتا، برخلاف اس کے کہ اگر وہ اسی کام کو میانہ روی و اعتدال کے ساتھ کرے، تو وہ ہمیشہ اس کام کو کر سکتا ہے اور بہترین عمل بھی وہی ہے، جس میں ہمیشگی اختیار کی جائے اور میانہ روی استقامت کی کنجی ہے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ دینِ اسلام سب مذاہب سے آسان ہے ، اس میں افراط اور تفریط بالکل نہیں ہے ، اسلام ہمیں قول و فعل و ہر عمل میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔

اللہ عزوجل ہمیں ہر کام میانہ روی سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم